عباس رضی اللہ عنہ سے تکبیرات موقوفاً ثابت بھی ہیں ، لیکن اگر اس بارے میں کوئی اور حدیث نہ بھی وارد ہوتی تو بھی ثبوت کے لئے یہی تلقی بالقبول کافی تھا۔ اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ تابعین ِمکہ نے تکبیرات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ کی گفتگو سے اشارہ ملتا ہے۔ نیز اس بات سے قطع نظر کیسے کیا جاسکتا ہے کہ امام بزی رحمہ اللہ ، سیدنا ابن کثیر مکی رحمہ اللہ تکبیرات کو نقل کرنے میں منفرد نہیں ہیں ،بلکہ امام قنبل رحمہ اللہ اور امام القواس رحمہ اللہ نے ان کی متابعت کی ہے۔ مزید برآں امام ابن کثیر رحمہ اللہ بھی منفرد نہیں ہیں ، کیونکہ امام ابوعمرو ابن العلاء رحمہ اللہ ، امام ابوجعفر رحمہ اللہ یزید بن قعقاع رحمہ اللہ ، امام ابن محیصن رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے تابعین نے ان کی متابعت کی ہے۔‘‘ [سنن القراء و مناہج المجودین:ص۲۲۴] اس سلسلہ میں علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جس طرح امام بزی رحمہ اللہ کوحدیث میں ضعیف کہا گیا ہے،اسی طرح امام حفص رحمہ اللہ ، امام دوری رحمہ اللہ اور امام حمزہ رحمہ اللہ پربھی ضعف کااطلاق کیاگیاہے۔ ان کا یہ ضعف حفظ وضبط کے قبیل سے تھا،نہ کہ ثقاہت و عدالت کا، لیکن علم ِحدیث میں ان کا ضعیف ہونا علم قراءات میں قابل طعن نہیں ،کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کو قرآن کریم کے ساتھ مشغول کردیاتھااورباقی علوم سے اپنی توجہ کو سمیٹ لیا تھا، جیسا کہ بعض محدثین علم حدیث میں تو ماہرین تھے، جبکہ علم قراءات کے حوالے سے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔یہی حالت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جواپنے آپ کو کسی ایک فن کے ساتھ وابستہ کرلیتا ہے۔‘‘[الفتح الرحمانی:۲۲۳] اس سلسلہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول بھی قابل توجہ ہے، فرماتے ہیں : ’’ قراء کرام کی ایک جماعت علم تجوید وقراءات میں پختہ اور ثقاہت کے معیار پر ہے، لیکن علم حدیث میں وہ ثابت شدہ نہیں ، جیساکہ امام نافع رحمہ اللہ ، امام کسائی رحمہ اللہ اور امام حفص رحمہ اللہ وغیرہ کا معاملہ ہے۔یہ لوگ علم قراءات کی تحقیق میں کمال پر فائز رہے، لیکن یہ کمال علم حدیث میں انہیں حاصل نہیں تھا اور عین یہی معاملہ بعض اہل الحدیث کا ہے کہ وہ علم حدیث میں متقن ہیں ، لیکن علم تجوید وقراءات میں ضعیف ہیں اور تمام علوم کے ماہرین میں یہ امر بالکل فطری ہے کہ جو ایک فن میں مضبوط ہو،بسااَوقات دوسرے فن میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ رحمہ اللہ [سیر أعلام النبلاء: ۱۱/۵۴۳] مبحث چہارم :تکبیر کس سے منقول ہے؟ یہ جان لیجئے کہ بقول ابن جزری رحمہ اللہ تکبیر مکی قراء و علماء اور ان سے روایت کرنے والوں کے نزدیک صحیح سند سے ثابت ہے اور اپنی شہرت اوراستفاضہ کی بناء پرتواتر کی حد تک پہنچ گئی ہے۔اختتام قرآن کے موقع پر نماز وغیر نماز میں اس کو پڑھنا مسنون ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (رِوَی الْقَلْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ)إلیٰ قولہٖ(وَفِیْہِ عَنِ الْمَکِّیِّیْنَ تَکْبِیْرُھُمْ مَعَ الْخَوَاتِمِ قُرْبَ الْخَتْمِ یُرْوٰی مُسَلْسَلا) [متن شعر۱۱۲۱تا۱۱۲۶] مکی قراء کے علاوہ اَئمہ کے نزدیک بھی یہ صحیح سند سے ثابت ہے، مگر ان کے نزدیک اس کی شہرت اس پر عمل کرنے کے اعتبار سے ہے، جیساکہ سید علی الصفاقسی رحمہ اللہ کا فرمانا ہے۔ [غیث النفع:۳۸۹] امام دانی رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت میں فرماتے ہیں : |