Maktaba Wahhabi

529 - 933
’’حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی کلام، ابو محمد الحسن بن محمد القرشی المکی رحمہ اللہ کی خبر سے حجت لینے پر دلالت کرتی ہے اوریہ خبر تکبیر کی نماز میں مشروعیت پر دال ہے، جیساکہ ابن جریج رحمہ اللہ کی کلام میں گذرا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ امام عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جس فتویٰ کا حوالہ دیا ہے وہ مجموع فتاویٰ جلد۱۳، صفحہ ۴۱۹ پر موجود ہے۔ علاوہ ازیں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ قراء کرام کے نزدیک تکبیرات کے مسنون ہونے کی بنیاد امام حاکم رحمہ اللہ کی المستدرک میں ذکر کردہ حدیث ہے یا قرآن کریم کی آیات وقراءات کے ساتھ تکبیرات کا تواتر نقل ہوناہے۔بلاشبہ یہ حدیث اور قرآن کریم کی اَسانید کے ساتھ تکبیرات کے منتقل ہونادونوں ہی حجت ہیں ۔ تکبیرات قرائے اہل مکہ اور ان سے روایت کرنے والوں کے نزدیک صحیح سند سے ثابت ہیں ، جیسا کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’قراء کرام کی منقولات میں تکبیرات اتنی عام اور مشہور ہیں کہ اپنی اَسانید کے اعتبار سے حد ِ تواتر تک پہنچ چکی ہیں ۔‘‘ [النشر: ۲/۴۰۵] علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’امام ترمذی رحمہ اللہ ، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ ، خطیب بغدادی رحمہ اللہ ، امام ابن صَخر رحمہ اللہ ، امام سیوطی رحمہ اللہ اور امام صنعانی رحمہ اللہ وغیرہ محدثین نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے کہ جب ضعیف حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے اورکسی زمانہ میں اس پرانکار نہ کیا گیاہو تو وہ ان شرائط کے ساتھ قبولیت کے مقام پر فائز ہوجاتی ہے اور اپنی شہرت ومقبولیت کی بنا پر تتبع اَسانید سے مستغنی ہوجاتی ہے۔ [الفتح الرحمانی:۲۲۳] لہٰذا یہ سنت مبارکہ اپنے ثبوت میں اَحادیث اور اسنادِ محدثین کی محتاج نہیں ۔ ڈاکٹر عبد العزیز القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جب کسی خبر کی سند ضعیف ہو اور اس کے معنی کوتلقی بالقبول حاصل ہو تو اس کی سند کا ضعف اس کے معانی پراثر انداز نہیں ہوتا۔ایسی صورت میں علماء کا ایسی روایت پر تعامل اتفاقی ایک قوی قرینہ ہے، جیساکہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں تعامل اہل مکہ کو اس حدیث سے احتجاج کے لیے ایک قرینہ کے طور پر ذکر کیا۔ اس قاعدہ کی کئی دیگر مثالیں موجود ہیں ، مثلا امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی قضاء کے بارے میں مروی حدیث کو اہل علم نے تلقی بالقبول سے نوازا اور اس سے حجت لی۔پس جس طرح حدیث:((لا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ)) ، سمندر کے پانی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد:((ہُوَ الطُّہُورُ مَاؤُہٗ)) ، حدیث:((إِذَا اخْتَلَفَ الْمُتَبَایِعَانِ فِی الثَّمَنِ وَالسِّلْعَۃِ قَائِمَۃ تَحَالَفَا وَتَرَادَّا البَیْعَ)) حدیث:((الدِّیَّۃُ عَلَی العَاقِلَۃِ)) وغیرہ اپنی اسانید کی جہت سے ثابت نہیں ہیں ، لیکن تمام اہل علم نے ہر زمانہ میں ان احادیث کو تلقی بالقبول کے ساتھ آگے نقل کیا ہے، چنانچہ اب یہ روایات اسناد سے قطع نظر بہرحال قابل احتجاج اور صحیح ہیں ، اسی طرح حدیث معاذ رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے۔‘‘ [الفقیہ والمتفقہ:۱/۱۸۹،سنن القراء: ص۲۲۴] موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’ حدیث تکبیرات کا معاملہ بھی مذکورہ اَحادیث ہی کی طرح ہے۔ صحت حدیث کے لیے یہ بھی ملحوظ رہے کہ ا بن
Flag Counter