یہی کہتے ہیں ۔ امام قسطلان رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: ’’یہ زیادہ قوی ہے، کیونکہ یہ ایک ہولناک موقع پرتکبیر تھی جو عربوں میں عام ہے۔‘‘[لطائف الاشارات:۱/۳۱۸] بعض کہتے ہیں کہ اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے اور وحی کے اختتام پرشکرانہ اداکرتے ہوئے آپ نے اللہ اکبر کہا۔ [غیث النفع:۳۸۵] مبحث دوم: تکبیرات کاحکم تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ تکبیر اگرچہ قرآن کریم کا حصہ نہیں ، لیکن اختتام قرآن کے موقع پر چند سورتوں کے آخر میں تکبیر(اللہ اکبر) کہنا ایسے ہی مستحب ہے جیسے ابتدائے تلاوت میں تعوذ پڑھنا مستحب ہے۔ اسی وجہ سے تکبیر کو مصاحف عثمانیہ میں سے کسی مصحف میں بھی نہیں لکھا گیا۔ [البدور الزاھرۃ:۳۵۰] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جس کا یہ دعویٰ ہے کہ تکبیر قرآن کریم کا حصہ ہے وہ شخص بالاتفاق تمام ائمہ کے نزدیک گمراہ ہے۔اس سے توبہ کروائی جائے گی اور اگر وہ توبہ کرے تو درست ، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے۔ [مجموع فتاویٰ:۱۳/۴۱۹] موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’اَئمہ دین میں سے کسی سے تکبیر کا وجوب ثابت نہیں ۔‘‘[مجموع فتاویٰ :۱۳/۴۱۹] علامہ جعبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اثبات ِتکبیر سے رسم قرآن کی مخالفت نہیں ہوتی، کیونکہ اس کے اثبات سے استعاذہ کی طرح یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو قرآن کریم تسلیم کیا جا رہا ہے۔‘‘[اتحاف فضلاء البشر:۲/۶۴۷] علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تکبیر کہنا اور نہ کہنا دونوں طرح سے جائز ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ تکبیر کہی اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کواس کا حکم دیا، جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اوربعض دفعہ تکبیرنہ کہی۔گویا کہ تکبیر و عدم تکبیر دونوں جائز ہیں ۔‘‘ [الفتح الرحمانی:ص۲۲۳ ، بحوالہ التذکرۃ از علامہ ابن غلبون:۲/۶۶۲] علامہ ابوالفتح فارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ہم نہیں کہتے کہ ہرآدمی جو قرآن کریم ختم کرے وہ تکبیر کہے۔ جس نے تکبیر کہی اس نے بھی اچھا کیا اور جس نے نہ کہی اس پرکوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ [النشر: ۲/۴۱۱] الغرض تکبیر کا حکم یہ ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے، جس کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورجلیل القدر مکی و غیر مکی تابعین نے روایت کیا ہے۔[البدور الزاھرۃ:ص۳۵۰] امام دانی رحمہ اللہ اپنی سند سے الشیخ المقری ابو محمد موسیٰ بن ہارون مکی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ’’انہیں (یعنی موسیٰ رحمہ اللہ کو) سیدنا بزی رحمہ اللہ نے بتایا کہ مجھے ابوعبداللہ محمدبن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر آپ نے تکبیر کو چھوڑ دیا توگویا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت کو ترک کردیا۔‘‘ |