Maktaba Wahhabi

516 - 933
برابرعمل چل پڑا ہے، حتی کہ اب قریباً کوئی شخص بھی ایسانہیں جو کلام پاک کاایک ختم کرکے دوبارہ دوسرا ختم شروع نہ کردے، خواہ وہ دوسرا قرآن جو اب شروع کیا ہے، اس کو پوراکرے یانہ کرے،اسی طرح برابر ہے کہ قاری کا قرآن پورا کرنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو،یہ کوئی قید نہیں ، بلکہ اب تو لوگوں کے یہاں یہ عمل سنت اور طریقۂ ختم قرار دیا جا چکاہے اور جو شخص یہ عمل بجالاتا ہے اُسے وہ لوگ الحال المرتحل کے نام سے یادکرتے ہیں ، یعنی وہ شخص جو ختم کے اخیرمیں اپنی قراءت کی منزل پر آکر قیام پذیر ہوگیااور پھر دوبارہ قرآن کریم شروع کرکے دوبارہ اپنی منزل کی طرف کوچ کرگیا۔‘‘ [کشف النظر:۳/۱۰۸۰] شیخ القراء قاری فتح محمد اعمی پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس روایت کا مقصدیہ ہے کہ اس میں کثرت سے تلاوت کرنے کااور اس پر ہمیشگی کرنے کا شوق دلایا گیا ہے۔ پس قاری جس وقت ایک ختم سے فارع ہو اسی وقت دوسرا شروع کردے، یعنی ایک ختم سے فارغ ہوکر قراءت سے اعراض نہ کرے،بلکہ قرآن کریم کی تلاوت اس کی جبلی اور پیدائشی عادت بن جائے۔(اللھم اجعلنا منھم وأَعِنَّا علی تلاوۃ القرآن وذکرک وشکرک وحسن عبادتک)‘‘[عنایاتِ رحمانی:۳/۴۸۱] الحالّ المرتحل کے حکم کے حوالے سے حافظ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ہم یہ بات قطعاً نہیں کہتے کہ یہ عمل واجبات میں سے ہے، بلکہ جس نے اس پر عمل کرلیا اُس نے عمدہ کام کیا اورجو یہ عمل نہ بجا لائے، اس پربھی کوئی تنگی نہیں ہے۔‘‘ [کشف النظر:۳/۱۰۹۰] حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کے مذکورہ اِرشاد کے مطابق ایساکرنابھی جائزہے کہ قاری سورہ الناس پرہی تلاوت ختم کردے اور ﴿المُفْلِحُوْنَ﴾ تک نہ پڑھے کہ ہمیشہالمُفْلِحُوْنَ تک پڑھنے سے لوگوں کو اس طریقہ کے ضروری اور لازمی ہونے کا شبہ ہوگا، جودرست نہیں ہے۔ شیخ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’اکثر تو پہلے ہی طریقہ پرعمل کریں اور کبھی کبھی دوسرے طریق پربھی عمل کرلیاکریں اور جب نیت اِصلاح کی ہوگی، تو اِن شاء اللہ اس صورت میں بھی مستحب ہی پرعمل کرنے کا ثواب ہوگا۔واللہ اعلم‘‘[قرآن مجید کے ختم کامستحب طریقہ:ص۴] حدیث: الحالّ المرتحل کے متعلق شبہات اور ان کا جائزہ شبہ نمبر ۱۔ حدیث:الحالّ المرتحل کا مدار ’صالح مُرِّی‘پر ہے ،یعنی انہی سے منقول ہے اور یہ اگرچہ نیک بندے ہیں ، لیکن محدثین کرام کے ہاں ضعیف ہیں ۔ اس شبہ کے بیان میں امام ابوشامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث کئی طرق سے’صالح‘ سے منقول ہے اور جس کے رجال کا سلسلہ یہ ہے: صالح ، قتادہ سے، وہ زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! أیُّ الأعمال أحبّ إلی اللّٰہ عزوجل؟قال الحالّ المرتحل۔اس حدیث کو امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع ترمذی کے آخر میں قراءۃ کے ابواب میں بیان کیا ہے اور سند اس طرح لکھی ہے :نصر بن علی الجھضمی،ہیثم بن الربیع سے، وہ صالح مری سے....پھر حدیث کا متن مذکورہ بالا الفاظ سے ہی بیان کیااور آخر میں امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، جس کو ہم حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صرف اسی
Flag Counter