طریق سے پہچانتے ہیں ۔ دوسری سند یہ ہے: محمد بن بشار، مسلم بن ابراہیم سے، وہ صالح مری سے، وہ قتادہ سے، وہ زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ....الخ۔ اس طریق میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کاذکر نہیں ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ صحیح تر ہے۔ الغرض سند کا سلسلہ چاہے جس طریقہ سے ہو، اس حدیث کا مدار ’صالح مری‘ ہی پر ہے اور اگرچہ یہ صالح شخص ہیں ، لیکن محدثین کرام کے ہاں ضعیف ہیں ۔امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہیں ۔امام نسائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صالح مری متروک الحدیث ہے۔‘‘[عنایاتِ رحمانی :۳/۴۸۱] جواب: اس حدیث کا مدار ’صالح مری‘ ہی پر نہیں ہے،بلکہ اس کو ’زیدبن اسلم‘ نے بھی روایت کیاہے اور امام دانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کوتفصیل کے ساتھ درج کیاہے۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ کی روایت کچھ یوں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ اعمال میں سے افضل ترین عمل کونسا ہے؟ توآپ نے جواب دیا:الحالّ المرتحل امام ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے ابوعفان مدنی رحمہ اللہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی اِرشاد فرماتے تھے کہ ھذا ـ أی الحالّ المرتحل ـ خاتم القرآن و فاتحہ۔ ‘‘ [جامع البیان:ص۷۹۶] امام دانی رحمہ اللہ نے اس کو سلیمان بن سعید کسائی رحمہ اللہ کے طریق سے بھی روایت کیا ہے: ’’ سلیمان رحمہ اللہ کہتے تھے کہ ہمیں حصیب بن ناصح رحمہ اللہ نے اور ان کو امام قتادہ رحمہ اللہ نے اور امام قتادہ رحمہ اللہ کو زرارہ بن اوفی رحمہ اللہ نے اور ان کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ أَنَّ رَجُلاً قَامَ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَیُّ الأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہ تَعَالیٰ، قَالَ الحَالُّ المُرْتَحِلُ،فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! وَمَا الْحَالٌّ المُرْتَحِلُ،قَالَ صَاحِبُ الْقُرْآنِ یَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِہٖ إِلَی آخِرِہٖ وَمِنْ ٰاخِرِہٖ إِلٰی أَوَّلِہٖ کُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ‘‘[جامع البیان:۱۱] پس یہ دعویٰ ثابت ہوگیا کہ یہ حدیث صرف ’صالح مری‘ ہی سے منقول نہیں ، بلکہ یہ ان کے علاوہ کئی اور حضرات سے بھی منقول و مروی ہے اور جب ضعیف حدیث کئی طرق سے منقول ہو تو وہ حسن ہوجاتی ہے اوریہ روایت بھی ایسی ہی ہے۔ [عنایاتِ رحمانی:۳/۴۸۴] شبہ نمبر۲۔ حدیث: الحالّ المرتحل کی تفسیر میں اختلاف ہے ،اس لئے یہ حجت نہیں بن سکتی۔ قراء کرام کے قول پر قرآن کریم کے ختم کرنے اور پھر شروع کردینے کے معنی میں ہے اور بعض فقہاء کی رائے پر اس سے لگاتارجہاد میں مشغول رہنااور اس کا ترک نہ کرنا مراد ہے۔ پس ایسا مجاہد جو ایک سفر جہاد سے واپس آنے کے کچھ دیر ٹھہرنے کے بعدپھر دوسرے سفر جہاد کے لئے سفر کے لیے کوچ کرجائے وہ اس حدث کا مصداق ہے۔ اس شبہ کے بیان میں امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب غریب الحدیث کے آخرمیں ، حدیث: أیّ الأعمال أفضل،قال:الحالّ المرتحل،قیل:وما الحالّ المرتحل؟ قال:الخاتم المفتتح کی توضیح میں فرماتے ہیں : |