’’جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو ختم کردیا تھا، وہ جھوٹا ہے۔اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ کام کرتے یا اس کاارادہ کرتے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سبعہ احرف تمام کے تمام ہمارے پاس اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح کہ مشہور ومعروف قراءات میں موجود ہیں ۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ ’سبعہ احرف‘ کے متعلق لکھتے ہیں : ’’ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الأحرف السبعۃ المشہورۃ نقل متواترا‘‘ [المستصفی :۱/۶۵] ’’مصحف وہ ہے جو دو گتوں کے درمیان ہے اور اس میں سات حروف ہیں جومشہور ہیں اور تواتر کے ساتھ منقول ہیں ۔‘‘ ابوالولید الباجی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فإن قیل ھل تقولون: إن جمیع ھذہ السبعۃ الأحرف ثابتۃ في المصحف والقراءۃ بجمیعھا جائزۃ؟ قیل لھم:کذلک نقول: والدلیل علیٰ صحۃ ذلک قولہ عزوجل: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ﴾ ولا یصح انفصال الذکر المنزل من قراء تہ فیمکن حفظہ دونھا ومما یدل علی صحۃ ما ذھبنا إلیہ أن ظاھر قول النبی! یدل علی أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف تیسیرا علی من أراد قراء تہ لیقرأ کل رجل مما تیسر علیہ وبما ھو أخف علی طبعہ وأقرب للغتہ لما یلحق من المشقۃ بذلک المألوف من العادۃ في النطق ونحن الیوم من عجمیۃ ألسنتنا و بُعدنا عن فصاحۃ العرب أحوج‘‘ [المنتقیٰ :۱/۳۴۷] ’’اگر یہ کہا جائے کہ کیا آپ کاقول یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف مصحف میں آج بھی موجود ہیں ، اس لیے کہ ان سب کی قراءۃ(آپ کے نزدیک) جائز ہے؟ تو ہم یہ کہیں گے کہ جی ہاں ! ہمارا قول یہی ہے اور اس کی صحت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ﴾ ’’کہ ہم نے ہی قرآن کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘ اور قرآن کو اس کی قراءات سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے کہ قرآن تو محفوظ رہے اور اس کی قراءات ختم ہوجائیں ۔‘‘ ہمارے قول کے صحیح ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کوسات حروف پر اس لیے نازل کیا گیا کہ اس کی قراءت کرنے والے کو آسانی ہو تاکہ ہر شخص اس طریقہ سے تلاوت کرسکے جو اس کے لیے آسان ہو، اس کی طبیعت کے لحاظ سے زیادہ سہل اور اس کی لغت سے زیادہ قریب ہو، کیونکہ گفتگو میں جوعادت پڑ جاتی ہے ، اسے ترک کرنا مشکل ہوجاتاہے اور آج ہم لوگ اپنی زبان کی عجمیت اور عربی فصاحت سے دور ہونے کی بنا پر اس سہولت کے زیادہ محتاج ہیں ۔‘‘ مندرجہ بالا اقوال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ انسان سبعہ حروف کاانکار کرے اور یہ کہے کہ اس وقت صرف ایک حرف ہے اور باقی کوئی حرف نہیں ۔اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے تصرف کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿وَإذَا تُتْلیٰ عَلَیْھِمْ آیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرَ ھٰذَا أوْ بَدِّلْہٗ قُلْ مَایَکُوْنُ لِیْ أنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآئِیْ نَفْسِیْ إنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوْحٰی إلَیَّ إنِّیْ اَخَافُ إنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ﴾ [یونس:۱۵] ’’جب انہیں ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس |