کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو: میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کرلوں ۔ میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جومیرے پاس بھیجی جاتی ہے۔اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔‘‘ یہ نص ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کسی زیر و زبر کا بھی تصرف نہیں کیا اور ہمارا ایمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی تصرف نہیں کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی تصرف نہیں کیا اور یہ قرآن اسی شکل میں جس شکل میں آسمان سے جبریل علیہ السلام لائے تھے، ہمارے پاس پہنچاہے۔ جہاں تک قراءات کاتعلق ہے تو وہ ثابت ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ قراءت مجھے پسند ہے اورفلاں کی قراءت پسندنہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں متعدد مقامات پر مختلف قراءات کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو تلف کیا، وہ کیاتھا؟ اب سوال پیداہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ختم کیا، وہ کیاتھا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اکٹھے کئے ہوئے صحائف جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، کو لے کر انہیں مصاحف میں نقل کیا، کیونکہ یہ عرضۂ اخیرہ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو آخری دور ہواتھا، اس کے مطابق تھے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال قرآن کا دور کرواتے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’کان یعرض علی النبی ! القرآن کل عام مرۃ فعرض علیہ مرتین في العام الذيقبض فیہ‘‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن ہرسال پیش کیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والے سال دو دفعہ آپ پرقرآن پیش کیا گیا۔‘‘ [صحیح البخاری:۸/۴۹۹] ابن سعد رحمہ اللہ نے مشہور تابعی علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’فأنا أرجو أن تکون قراء تنا العرضۃ الآخیرۃ‘‘ [الطبقات الکبریٰ :۲/۱۹۵] ’’پس مجھے اُمید ہے کہ ہماری موجودہ قراءت اسی عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔‘‘ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرضۂ اخیرہ والے قرآن کو ہی نقل کیاتھا جبکہ عرضہ اخیرہ والا قرآن وہ قرآن تھا جس میں آخری احکام اور جو جو تبدیلی مقصود تھی، کردی گئی۔ اب یہ قرآن جوتبدیلیوں سے مبرا تھا، اسی کوسامنے رکھتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف نقل کئے اور تبدیل شدہ چیزیں جن میں منسوخ آیات، شاذ قراءات اور سبعہ احرف میں سے جزوی چیزیں بدل جاچکی تھیں اور لوگوں میں شائع ہوچکی تھیں اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع شدہ قرآن کی اطلاع نہ پاسکے، نتیجتاً جس کسی کے پاس جو کچھ تھا وہ تلاوت کرتا رہا، جس سے اختلافات کاہونالازم امر تھا۔ اب جو مصاحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تلف کئے تھے، ان میں یہ چیزیں شامل تھیں مثلاً ایسی منسوخ آیات جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی مگر لوگ پڑھ رہے تھے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فأنزلت ھذاالآیۃ ﴿حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْعَصْرِ﴾ فقرأنا ھا ماشاء اللّٰہ ثم نزلت ﴿حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی﴾ |