Maktaba Wahhabi

336 - 933
تشویش اس پر ہوئی کہ اس تنوع قراءات کے انکار کے سلسلہ میں انکار جو رویہ تھا،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش ہوئی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو بھی وہی تشویش ہوئی تھی جو اس قسم کے اختلاف پر ہونی چاہیے تھی۔ ایک سے زیادہ روایات میں صراحت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں جب بھی منزل من اللہ قرآن یا اس کی قراءات کے ضمن میں کوئی اختلاف پیدا ہوا تو آپ نے ہر موقع پر ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ اور ’’فاقرؤا ما تیسَّر کلّھا شافٍ کافٍ‘‘ وغیرہ الفاظ بول کر اس قسم کے اختلاف کا خاتمہ فرمایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی آذربائجان اور آرمینیہ میں منزل من اللہ غیر منسوخ قراءات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں جمع کرکے کہا تھا: ’’اذکر اللّٰہ رجلا سمع النبی قال ان القرآن انزل علی سبعۃ أحرف کلھا شاف کاف الا قام ، فقاموا حتی لم یحصوا فشھدوا بذلک۔‘‘ [مسند أبو یعلی] معلوم ہوا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اللہ کی قسم دے کرگواہی طلب کی کہ جس جس نے حدیث ’سبعۃ أحرف‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی ہے تو وہ کھڑا ہوجائے، تو اتنی بڑی تعداد کھڑی ہوگئی کہ اسے شمار کرنا ممکن نہ تھا۔ فرض کریں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو مشکل درپیش ہوئی، اگر یہ مشکل آپ کو درپیش ہوتی تو آپ کیا کرتے؟ میں یہ کہتاہوں کہ ہمارے زمانے میں اس قسم کا اختلاف ہوا ہے۔ سعودی عرب میں بھی ہوا، مصر میں بھی اور پاکستان میں بھی، بلکہ دیگر ممالک میں بھی ایسا اختلاف پیدا ہوا، اگرچہ اس کی نوعیت کچھ مختلف تھی وہ یہ کہ جب سے مطبع خانے آئے اور قرآن کریم کتابت کے بجائے پرنٹنگ پریس سے دھڑا دھڑ چھپنے لگے تو املائی اغلاط کی کثرت ہوگئی، حتی کہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ایسے محقق نسخے تیار کیے جائیں ، جنہیں معیار کا درجہ دے دیا جائے۔ لوگوں نے انفرادی کوششیں بھی کیں اور حکومتی سطح پر بھی کوششیں ہوئی۔ مصر میں ملک فواد الاول نے اور سعودیہ میں شاہ فہد بن عبد العزیز وغیرہ نے اپنی نگرانی میں باقاعدہ اس کام کو کروایا۔ پاکستان میں وسائل کی قلت کی وجہ سے غالبا بھٹو دور میں ایک آرڈیننس جاری کردیا گیا، جس کی رو سے لازم کردیا گیا کہ قرآن کریم کی کوئی طباعت وزارت الاوقاف کی طرف سے مقرر دو پروف ریڈروں کی نظر ثانی کے بغیر نہیں کی جاسکے گی۔ سعودی عرب نے تو اپنے وسائل کی کثرت کے پیش نظر یہ کام بھی بعد ازاں کیا کہ تمام غیر مصدقہ مصاحف کو ضبط کرکے حکومتی سطح پر تیار شدہ تحقیقی مصحف، جس کا نام مصحف مدینہ تھا، کو لازم کردیا ہے۔ حتی کہ سعودیہ میں عمرہ یا حج کے مواقع پر باہر سے کوئی قرآن لانے پر ایک دور تک سخت پابندی بھی رہی ہے۔ آج بھی سعودی عرب میں کوئی نجی ادارہ ذاتی طور پر کوئی قرآن طبع نہیں کرسکتا، جس نے اس سلسلہ میں کوئی ہدیہ دینا ہوتا ہے وہ بھی وزارۃ الأوقاف والشئوون الإسلامیۃکو ہی آکر تعاون دیتا ہے،وزارت اس کے تبرع کو مصحف مدنیہ کی اشاعت میں شامل کرلیتی ہے۔ اسی قسم کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا، جو آج کے زمانہ میں سعودی حکومت نے کیا۔ انہوں نے اس سارے اختلاف کو حل کرنے کے لیے تین قسم کے اقدامات کیے: ۱۔ پہلے مرحلہ پر مدینہ اور اس کے قرب جوار میں مترادفات اور تفسیری کلمات کے بطور قرآن رائج ہونے کے ضمن میں جو اختلاف تھا اس کا حل یہ سوچا گیا حکومتی نگرانی میں ایک مصدقہ نسخہ تیار کروا کر باقی موجود تمام غیر مصدقہ
Flag Counter