شدت اختیار کرگیا تو اس قسم کے مشاہدات بھی سامنے آئے کہ بعضوں نے تمہاری قراءت غلط، ہماری صحیح ہے۔ دیگر بعضوں نے جوابی رد میں اس دوسری قراءت کی تغلیط کردی۔ یاد رہے کہ اختلاف ِقراءات کے ضمن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کئی دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین اس قسم کے اختلافات رو نما ہوئے کہ آوازیں بلند ہوگئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا دفعہ اس اختلاف کو دبانے کی کوشش فرمائی، بلکہ بعض اوقات تو انتہائی ناراضگی بھی فرمائی۔ اس حوالے سے سب سے مشہور واقعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں آیا ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں موجود تھے اور ان کے اندر قرآن کریم اور اس کی قراءات کے ضمن میں اختلاف ہوا اور آوازیں بلند ہوگئیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصے سے سُرخ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم لوگ اختلاف کیوں کررہے ہو، اختلاف نہ کرو‘‘ اور ناراضگی سے فرمایا کہ’’ تم سے پہلے لوگ اختلاف کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے ہیں ‘‘۔ إنما ہلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتاب[صحیح مسلم: ۲۶۶۶]سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ جو چیز منزل من اللہ ہے، اس کو سرتسلیم خم کرکے مان لو، اس بارے میں خوامخواہ اختلاف نہ کرو۔ عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسی بنیاد پر اہل سنت کا یہ عقیدہ نقل فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرنا کفر ہے۔ متن طحاویہ کی شرح میں امام ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ نے اسی روایت کو پیش کرکے بتایا ہے کہ امام موصوف رحمہ اللہ کی مراد اس سے قراءات کی قبولیت کا مسئلہ ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آذربائیجان اور آرمینیہ وغیرہ میں جو اختلاف حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا، انہوں نے چونکہ اس سلسلہ میں ارشادات سن رکھے تھے چنانچہ جب مدینہ واپس تشریف لائے تو پہلا کام یہ کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور وہی لفظ بولے جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بولے تھے۔ کہنے لگے کہ ’’أدرکْ ھذہ الأمۃ‘‘[ صحیح البخاري: ۴۹۸۷] یعنی اس اُمت کو تھام لیجئے، اگر آپ نے اس اُمت کونہ تھاما تو یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق بھی پچھلی امتوں کی طرح قرآن کو ضائع نہ کربیٹھے ۔ یہ نیا مسئلہ اس اعتبار سے زیادہ حساسیت کا متقاضی تھا کہ قرآن مجید کے بارے میں کھینچ تان جاری تھی، جبکہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں پہلے سے موجود اختلاف میں کھینچ تان کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ ایک طرح سے لا علمی کامعاملہ تھا۔ یہ ہے جمع عثمانی کا وہ پس منظر، جس پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو مسائل درپیش تھے وہ مذکورہ چار نوعیتوں کے تھے۔ ایسا کوئی مسئلہ وہاں زیر بحث ہی نہ تھا کہ اختلاف قراءات کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اختلاف غیر منسوخ طور پر چھوڑ گئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے حوالے سے کوئی مشکل درپیش تھی۔ اختلاف قراءات سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پریشان تھے اور نہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ، کیونکہ ایسا ہوتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیامطلب ہوتا:((إنما ھلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتاب)) [صحیح مسلم: ۲۶۶۶] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں قراءات کے تنوع پرتشویش کااظہار نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو |