Maktaba Wahhabi

337 - 933
مصاحف کو ضبط کرکے ختم کردیا جائے، تاکہ ضرورت کی تکمیل حکومتی نسخہ سے پوری ہوجائے اور قرآن مجید میں کمی وزیادہ یا الفاظ کی تبدیلی کے ضمن میں جس قسم کے غیر منزل اللہ یا منسوخ شدہ اختلافات ِ تلاوت موجود تھے، جنہیں مستشرقین نے بعد ازاں تحریف قرآن کی بنیاد بنایا تھا، انہیں ختم کیا جا سکے۔ ۲۔ مصاحف کے خاتمہ کے لیے چونکہ ضروری تھا کہ حکومتی سطح پر ایک مصدقہ ومحقق نسخہ تیار کرکے پھیلایا جائے۔ اس کے لیے نئے سرے سے کام کرنے کے بجائے پہلے سے موجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کام کو بنیاد بنا لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ روایات سے واضح ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جس طرح مسجد نبوی کے دروازہ پر کھڑا ہو کر دو افراد کی گواہیوں سے قرآن کریم کو یکجا کیا تھا اب کی بار ایسا نہیں ہوا، بلکہ صحف ابی بکر، جوکہ بعد ازاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں آگئے تھے، کو منگوا کربارہ افراد کی ایک کمیٹی ترتیب دی گئی، جس کے ذمہ یہ کام تھا کہ صحف ِابی بکر کی نئے سرے سے چیکنگ کرکے اسے ایک مکمل مصحف کی صورت دی جائے اور جو کمیاں قبل ازیں رہ گئی تھیں انہیں پورا کر دیا جائے، کیونکہ امت کے لیے ایک ’معیار‘ کو عملی طور پر مہیا کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے قرآن کریم کے بارہ بڑے بڑے ماہرین نے کام شروع کردیا۔ اس ضمن میں صرف ایک مقام پر یہ مشکل درپیش آئی کہ صحف ابی بکر میں امتداد زمانہ کی وجہ کلمہ التابوت کی دوسری تاء مٹ گئی تھی اور معلوم نہ ہو پارہا تھا کہ یہ کلمہ چھوٹی تاء کے ساتھ لکھا جائے یا بڑی تاء سے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر کی گئی تو انہوں نے ایک راہنما ارشاد یہ فرمایا: ((إذا اختلفتم أنتم وزید فاکتبوہ بلغۃ قریش، فإنما نزل بلسانہم)) [بخاری:۳۵۰۶] چنانچہ آپ کے ارشاد کی روشنی می اس کلمہ کو لغت قریش کے مطابق لکھ دیا گیا۔ قابل نوٹ نکتہ یہ ہے کہ بعد ازاں اس اجتہاد کو اس طرح سے باقاعدہ قطعیت بھی یوں مل گئی کہ اس لفظ کو اس طرح سے لکھنے کی نص حاصل ہوگئی۔ اس طرح سے یہ کہنا اب ممکن ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ مصاحف کا طریقہ کتاب ان کا اپنا ذاتی نہ تھا بلکہ رسول اللہ ہی سے منقول چلا آتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لغت قریش کے مطابق لکھنے کا حکم دیا تھا، ناکہ لغت قریش کو باقی رکھ کر باقی لغات کو ختم کرنے کی تلقین فرمائی تھی، جیسا کہ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے۔ بہرحال جب یہ تحقیقی نسخہ تیار ہوگیا تو مدینہ میں موجود بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمل پر موافقت کا اظہار کیا، جس کے بعد اس نسخہ کی پانچ، بعض روایات کے مطابق سات اور بعض روایات کے مطابق آٹھ کاپیاں کروا کر حکومتی نسخہ جات کے طور پر نشر کردیا گیا، جبکہ باقی متنازعہ وغیر مصدقہ مصاحف کو ضبط کرکے تلف کردیا گیا۔ یاد رہے کہ ان حکومتی نسخہ جات کو اعراب ونقاط سے خالی رکھا گیا تھا، تاکہ عرضۂ اخیرہ میں ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں باقی رہ جانے والے اختلافات کو یہ جامع رسم شامل ہوسکے۔ ۳۔ قرآن کی حفاظت کے بارے میں قرآن کریم میں یوں وارد ہوا ہے کہ بل ہو آیات بیِّنات فی صُدور الَّذین أوتو العلم اور امت محمدیہ کے بارے میں احادیث میں موجود ہے کہ أناجیلہم فی صدورہم [مجمع الزوائد:۸/۲۷۴] قرآن کریم کو اس طریقہ سے محفوظ رکھنے کی کئی حکمتیں ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
Flag Counter