Maktaba Wahhabi

257 - 933
نقاط واعراب سے خالی رکھا تاکہ وہ مصاحف جملہ لغات واختلافات واحرف وقراءات کے حامل ہوسکیں ، یہ قول علامہ ابن الجزری اور علامہ قرطبی وامام ابوعمر و الدانی رحمہم اللہ وغیرہم سے منقول ہے۔ اس پورے بیان سے معلوم ہو گیا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مصاحف عثمانیہ میں حرف ولغت قریش کے علاوہ دیگر لغات واحرف کو بالکلیہ ہی منسوخ نہ فرمایا تھا بلکہ صرف الجزئیہ نادرًا و قلیلاً فقط انہی لغات کو موقوف فرمایا تھا جو عند قریش معتبر ومتداول ومستعمل نہ تھے۔ باقی بالاغلبیہ ان احرف ولغات ستہ کو یقیناً ثابت و باقی رکھا تھا جوقریش کے نزدیک معتبر ومتداول ومستعمل تھے۔ نیز اس تقریر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ محض سطحی نظر میں جو بعض حضرات علمائے کرام یہ فرمادیا کرتے ہیں کہ عہد عثمانی میں صرف ایک ہی لغت باقی رہ گیا تھا اورباقی سب لغات ختم ہو گئے تھے اس لیے آج اختلافِ قراءت کی گنجائش نہیں یہ بات سراسر خلاف واقعہ ہے کیونکہ حالیہ جملہ قراءات عشرہ لغت قریش اور اس کے توابع باقی لغات ستہ فصیحہ معتبرہ عند قریش کی روشنی میں اس آخری عرضے والے سبعہ لغات وسبعہ وجوہِ اختلافی قراءت کے مطابق مدوّن ہوئی ہیں جو حضور اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری سال وفات میں حضرت جبرائیل امین2کے ساتھ ماہِ رمضان المبارک میں فرمایا تھا۔ اس مضمون کی مزید تفصیلات وتحقیقات ناچیز رقم کی تازہ ترین تالیف’’ دفاع قراء ات‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ایک شبہ اور اس کا جواب شبہ: یہ ہے کہ علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے بقول دورعثمانی میں سبعہ احرف میں سے صرف ایک قریشی حرف ہی کو باقی رکھا گیا تھا اور باقی غیر قریشی چھ احرف کو موقوف قرار دے دیا گیا تھا ، پھر سبعہ احر ف کی بقائیت کا قول کیونکر درست ہوا؟ الجواب: طبری رحمہ اللہ نے جمع عثمانی میں سبعہ احرف میں سے جو صرف ایک ہی حرف قریش کے بقاء کا قول کیا ہے طبری رحمہ اللہ کے یہاں راجح اورآخری تحقیق کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں بدوی قسم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رعایت کی وجہ سے سات کلمات ولغات کی حد تک ہم معنی متبادل کلمہ ولغت پڑھنے کی اجازت تھی لیکن پھر اولا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہی میں یہ اجازت ختم کر دی گئی اس کے بعد ثانیاً جمع عثمانی کے وقت ان ستّہ مترادفات کی منسوخیت کی مزید اشاعت وتشہیر کی گئی اب خاص اس ایک ہی قریشی کلمۂ مترادفہ کے پڑھنے کی اجازت ہے جس کے مطابق اولاً قرآن کریم نازل ہوا تھا مثلاً ہَلُمَّ کی جگہ تَعَالَ پڑھنے کی اجازت قطعاً موقوف قرار دے دی گئی ۔ علامہ طبری رحمہ اللہ قطعا اس کے قائل نہیں کہ ’’سبعہ لغات غیر مترادافات ‘‘ اور سبعہ وجوہ انواع اختلافِ قراء ت‘‘ میں سے بھی صرف ایک ہی قریشی لغت اور صرف ایک ہی اختلافی وجہِ قراءت پڑھنے کی اجازت ہے اور باقی چھ لغات ا ور چھ اختلافی وجوہ قراءت ختم کر دی گئی ہیں۔ اس کی قوی ترین دلیل یہ ہے کہ علامہ طبری رحمہ اللہ نسخ مترادفات ستہ کے باوجود اختلافِ قراءت کے یقیناً مثبت وقائل ہیں جیسا کہ ۱۔ تفسیر طبری میں مختلف قراءات کا تذکرہ موجود ہے۔
Flag Counter