Maktaba Wahhabi

256 - 933
ہے کہ قریش زمانہ قبل از نزول وحی و قرآن میں سب لغاتِ عرب کی چھان پھٹک کرتے تھے اور بازار ہائے عرب ،مواسم عرب، تاریخی واقعاتِ عرب نیز حج وعمرہ کے مواقع پر جائزہ لیا کرتے تھے اور ہر قبیلے کی لغات میں سے جو الفاظ انہیں چاشنی دارلگتے انہیں اخذ کر لیا کرتے اورپھر مزید تہذیب وتنقیح کے بعد ان کا اپنی زبان میں استعمال شروع کر دیا کرتے تھے اس طرح لغت قریش ،قبائل عرب کی جملہ لغات میں سے پسندیدۂ ومنتخب الفاظ کامرکز واجتماعی نقطہ قرار پاگئی۔‘‘ ٭ دلیل نمبر۸:علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا ارشادہے : ’’قول من قال إن القرآن نزل بلغۃ قریش معناہ عندی ’فی الاغلب‘ ۔ واللّٰہ أعلم ۔لأن غیر لغۃ قریش موجودۃ فی صحیح القراءات من تحقیق الہمزات ونحوہا وقریش لا تہمز ‘‘ [تفسیر القرطبی:۱/۳۳] ’’جس قائل نے یہ کہا ہے کہ ’’قرآن لغت قریش میں نازل ہوا ہے ‘ ‘ میرے نزدیک اس کا مقصد یہ ہے کہ’’ اکثر وبیشتر ایسا ہی ہے‘‘ واللہ اعلم۔ وجہ یہ ہے کہ قراءات صحیحہ میں غیر لغت قریش بھی موجود ہے مثلاً ہمزات وغیرہ کی تحقیق(بلغۃ تمیم) باوجودیکہ قریش تحقیق نہیں کرتے(بلکہ ابدال کرتے ہیں )‘‘ ٭ دلیل نمبر۹:اختلافاتِ قراءات کی بابت مصاحف عثمانیہ میں باہم خلافات پائے جاتے ہیں مثلاً ۱۔ مصاحف اہل مدینہ وشام میں سورۂ بقرۃ رکوع ۱۶ میں وَاَوْصٰی بِہَا اور مصحف کوفیین میں وَوَصّٰی بِہَا مرسوم تھا۔ ۲۔ مصحف اہل حرمین میں سورۃ الانعام رکوع ۸ میں لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا اور مصحف کوفیین میں لَئِنْ اَنْجٰنَا مرسوم تھا۔ ۳۔ مصاحف مکیہ وشامیہ میں سورۃ الاسراء رکوع ۱۰ میں قُلْ کی بجائے قَالَ سُبْحَانَ رِبِّیْ مرسوم تھا۔ ۴۔ مصاحف مدنیہ وشامیہ میں سورۃ الحدید رکوع ۳ میں فَإِنَّ اللّٰہ ہُوَالْغَنِیُّ کی بجائے فَاِنَّ اللّٰہ الْغَنِیُّ بحذف ہو مرسوم تھا ، وغیر ذلک۔ اگر مصاحف عثمانیہ میں صرف ایک ہی اختلافی وجہ ہوتی تو قطعاً ان کے مابین اس قسم کے خلافات نہ پائے جاتے۔ معلوم ہوا کہ جزوی فرش الحروف اورمخصوص کلمات خلافیہ کی بابت عرضۂ اخیرہ والے جملہ سبعہ اختلافاتِ قراءت مصاحف عثمانیہ میں موجود تھے۔ ٭ دلیل نمبر۱۰:دورِ عثمانی کے مصاحف میں سبعہ لغات وسبعہ اختلافاتِ قراءت کی بقائیت کی ایک قوی ترین دلیل یہ ہے کہ دور عثمانی کی رسم میں جو مصاحف لکھے گئے تھے وہ غیر منقوط اور غیرمشکل وبے اعراب تھے تاکہ حرف قریش کے علاوہ دیگر احرف ولغات کی نیز جملہ سبعہ اختلافاتِ قراءت کی بھی رعایت بر قرار رہ سکے مثلاً موسٰی میں سین کی کھڑی زبر تاکہ امالے والے لغت کی رعایت بھی ملحوظ رہے ۔ وزن فُعل میں عین کلمہ کو سکون سے خالی رکھا تاکہ یہ لفظ لغت ضمہ کا بھی حامل ہو سکے ضُعف میں ضاد کاضمہ نہ لکھا تاکہ یہ فتحہ والے لغتِ تمیم کو بھی شامل ہو جائے یُؤمِنُوْنَ وغیرہ میں واو پر جزم نہ بنائی تاکہ تحقیق ہمزہ والے لغت تمیم کی بھی رعایت ملحوظ رہے ۔ بِزَعْمِہِمْ میں زا کو فتحہ سے خالی رکھا تا کہ یہ لفظ ضمۂ زا والے اسدی لغت کا بھی حامل ہو سکے۔ وَلَایُقْبَلُ بقرۃ رکوہ ۶ میں یا کے نیچے دو(۲) نقطے نہ بنائے تاکہ تا والی قراءت بھی ظاہر ہو جائے۔ قَدَرُہُ ، بقرہ رکوع ۳۱ میں دال پر زبر نہ بنائی تا کہ جزم والی قراءت کی بھی گنجائش رہے۔ ہَیْتَ میں ہا کو زبر سے ، یا کو دونقطوں سے اور تا کو زبر سے خالی رکھا تا کہ یہی ایک رسم ہَیْتُ، ہِیْتَ، ہِئْتَ والی لغات وقراءات کو بھی شامل ہو جائے۔ خلاصہ یہ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان مصاحف عثمانیہ کو
Flag Counter