عثمانی کی بابت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث روایت فرمائی ہے: قال عثمان لہم إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی عربیۃ القرآن فاکتبوہا بلسان قریش فإن القرآن أنزل بلسانہم ففعلوا [صحیح البخاري] اس حدیث کے ترجمۃ الباب میں ’بلسان قریش‘ کے ساتھ ’’والعرب‘‘ کے اضافہ سے امام بخاری کایہی مقصد ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف عثمانیہ کی صرف رسم الخط تو خاص ’اصل قریشی لغت‘ ہی کے اتباع کا حکم صادر فرمایا تھا مگر قراء تاً ان مصاحف عثمانیہ میں جملہ سبعہ اَحرف ولغاتِ عرب موجود تھے(لغت قریش بالکلیہ، لغات ستہ بالاغلبیۃ) نیزیہ کہ لغت قریش میں نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ بالجملہ قرآن سب ہی لغات عربیہ میں اتر ا ہے، کیونکہ لغت قریش بقیہ تمام لغات عرب کے جزوی حصے پر مشتمل وحاوی تھی جس کا پس منظر یہ تھا کہ قریش باقی قبائل سے اختلاط رکھتے تھے اور ان کی لغات میں سے جید وفصیح لغات کی چھانٹی کر کے انہیں اپنی لغت میں شامل کر لیا کرتے تھے، لہٰذا لغت قریش میں نزول قرآ ن کا مقصدیہ ہے کہ بالجملہ قرآن سب ہی لغات عربیہ میں اترا ہے اورحدیث ہذا کے ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی ہدفِ مطلوب ہے۔ ٭ دلیل نمبر۲:لغت قریش اپنے ماحول کی بہت سی لغات سے متاثر ہوئی اور دوسری لغات کے بہت سے الفاظ اورصیغے چن کر قریش نے اپنی لغت میں شامل کر لئے تھے جس کے متعدد عوامل ومواقع انہیں مہیاہوتے تھے مثلاً وہ بیت اللہ کے مجاورین اورمرجع الخلائق تھے ، سردی وگرمی میں قریش دو اسفار کرتے تھے ، عرب میں متعدد بازار لگتے تھے ، شعر ونقدِ ادبِ عربی کی مختلف مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں پس جب ہم لغتِ قریش بولتے ہیں تو گویا ہم اس سے وہ پوری لغت عربیہ مشترکہ مراد لیتے ہیں جو عرب کے ان جملہ چیدہ چیدہ فصیح ادباء، شعراء، خطباء کی متشرکہ زبان تھی جنہیں قرآن نے اپنے مثل صرف ایک سورت یا صرف ایک جملہ ہی بنا کر پیش کرنے کا چیلنج کیا تھا۔ ٭ دلیل نمبر۳: وکانت قریش أجود انتقائً لا فصح الالفاظ وأسہلہا علی اللسان عند النطق وأحسنہا جرساً وإیقاعا فی السمع وأقواہا إبانۃ عما یختلج فی النفس من مشاعر وأحاسس وأوضحہا تعبیراً عما یجول فی الذہن من فکر ومعان لذلک غدت قریش أفصح العرب [الصاحبی فی فقہ اللغۃ:۲۳] ’قریش‘ دیگر قبائل کے لغات ولہجات میں سے انتخاب وچناؤ کے بارے میں سب سے زیادہ باذوق واقع ہوئے تھے کہ وہ ایسے الفاظ کا انتخاب کرتے جو انتہائی فصیح ہوتے ، بولتے وقت زبان پر بہت آسان ، سننے میں پر شوکت ، اندرونی جذبات واحساسات کے اظہار میں سب سے قوی اور ذہنی افکار ومعانی کی تعبیر میں انتہائی واضح ہوتے تھے لہٰذا قریش افصح العرب قرار پائے۔‘‘ ٭ دلیل نمبر۴:قال الفراء: کانت العرب تحضر الموسم فی کل عام وتحج البیت فی الجاہلیۃ،وقریش یسمعون لغات العرب فما استحسنوہ من لغاتہم تکلموا بہ فصاروا أفصح العرب وخلت لغتہم من مستبشع اللغات ومستقبح الالفاظ وذہب ثعلب فی امالیہ مذہب الفراء[المزہر :۱/۲۱۱،۲۲۱] ’’فراء کہتے ہیں کہ عرب ہر سال موسم میں آتے اور جاہلیت کے طریقے پر حج کرتے تھے ، قریش اس موقع پر سب عرب |