اس کے معنی یہ ہیں کہ’’اطمینان سے کام لو جلدی نہ کرو ‘‘ ظاہر ہے کہ دونوں باتوں میں کوئی ضدیت نہیں کیونکہ اوّلا اطمینانیت وسکون سے کام لیا جائے گا تو ثانیاًا اسی کے نتیجے میں تحقیقِ صورتِ حال کا وُقوع ہوگا۔فیا سبحان اللہ ٭ مثال نمبر۱۰:مائدہ رکوع نمبر۲ وَاَرْجُلَکُمْ اِلٰی الْکَعْبَیْنِ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح وَاَرْجُلَکُمْ بنصب اللام اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ’’وضو میں دونوں ٹخنوں تک پاؤں کا دھونا مطلوب ہے‘‘ کیونکہ اس صورت میں یہ لفظ وُجُوْہَکُمْ پر معطوف ہو گا جو مغسول ہے۔ دوسری وَاَرْجُلِکُمْ بجر اللام اس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’وضو میں پاؤں کامسح مطلوب ہے‘‘ کیونکہ اس صورت میں یہ بِرُئُ وسِکُمْ کے لفظ رُئُ وسِکُمْ پر معطوف ہوگا جوممسوح ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح یوں فرما دی کہ یہ دو مختلف حالتوں کے لحاظ سے دومستقل احکامِ شرعیہ ہیں کہ مسح(علی قراءۃ الجرّ) موزے پہننے والے کے لئے ہے اور عسل(علی قراءۃ النصب)موزے نہ پہننے والے کے لئے ہے۔ فیا سبحان اللّٰہ ![النشر: ۱/۲۸،۲۹،مناہل العرفان للزرقانی:۱/۱۴۰،۱۴۱،مقدمۂ کتاب المبانی:۲۳۰،۲۳۱] دورِ عثمانی میں بعض غیر فصیح سبعہ احرف ولغات کی موقوفیّت دورِ عثمانی کے مصاحف ِعثمانیہ میں ’سبعہ کلماتِ مترادافات‘ کے ان مواقع میں جن میں الفاظ کئی تھے مگر معنی سب کے ایک ہی تھے ہر ہر جگہ حرفِ قریش کے مطابق صرف ایک ایک اسی کلمۂ مترادفہ کوباقی رکھ کر ، جس کے موافق اولاً قرآن کریم نازل ہوا تھا۔عثمانی مصاحف لکھے گئے اوربقیہ چھ لغاتِ مترادفہ کا ان مصاحف میں قطعا لحاظ نہ رکھا گیا مثلاً قل تعالوا، قُلْ ہَلُمَّ میں اَقْبِلُوْا اَسْرِعُوْا اِعْجَلُوْا اورتَعَالٰی اَقْبِلْ اَسْرِع اِعْجَل کا اور مَشَوْا فِیْہِ میں مُرُّوْا فِیْہِ سَعَوْا فِیْہِ کا اور لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا انْظُرُوْنَا میں اَخِّروْنَا اُرْقُبُوْنَا کا اوروَاَقْوَمُ قِیْلًا میں اَصْوَبُ قِیْلاً اَہْیَا قِیْلا ًکا لحاظ نہ رکھا گیا۔ مگر مترادفات کے علاوہ ’’سبعہ لغاتِ عرب‘‘ اور’’سبعہ انواعِ اختلافِ قراء ت‘‘ کا ان مصاحف عثمانیہ میں عرضۂ اخیرہ اور لغتِ قریش کی روشنی میں یقیناً لحاظ رکھا گیا تھا۔اور ان کو ثابت وبدستور رکھا گیا تھا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ دور عثمانی میں قریشی حرف ولغت و وجہِ اختلافی کو توحسبِ سابق کلی طور پر باقی رکھا گیا تھا اور اس کاکوئی فرد بھی موقوف نہ کیا گیا تھا لیکن غیر قریشی باقی چھ احرف ولغات وانواعِ اختلافِ قراءت میں سے جزوِ غالب کے طور پر صرف ان احرف ولغات واختلافاتِ قراءت کو باقی رکھا گیا تھا جو اس عرضۂ اخیرہ اور آخری دورِ نبوی میں بھی مقروء ہوئے تھے جو حضور ِ امین صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری سال وفات میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ماہِ رمضان المبارک میں فرمایا تھا اور لغتِ قریش کے تابع ہو کر وہ لغات واختلافات عند قریش بھی معتبر ومتداول ومقبول ومستعمل ہونے لگ گئے تھے اور انہیں کی لغت میں شامل ہو گئے تھے۔ عرضۂ اَخیرہ کے مطابق اختلافاتِ قراء ت نیز غیر قریشی لغاتِ ستہ فصیحہ معتبرہ عند قریش غیر منسوخ کی امثلہ ۱۔ امالہ نجد تمیم کا قیس کا لغت ۲۔ فُعل کے وزن میں عین کلمہ کا سکون مثلاً عُذْراً أوْ نُذرًا،نُکرًا یُسرًا تمیم اسد قیس کا لغت ۳۔ ضَعف میں ضاد کا فتحہ تمیم کا لغت |