Maktaba Wahhabi

250 - 933
تذکیر کی یاء سے پڑھا گیا جیسا کہ فَقَدْجَآئَ کُمْ بَیِّنَۃٌ انعام رکوع نمبر۲۰ اور لَوْ لَا أَنْ تَدٰرَکَہُ نِعْمَۃٌ القلم رکوع نمبر۲ میں بھی فاعل کی لفظی تانیث کی وجہ سے تذکیر آئی ہے دوسری وَلَا تُقْبَلُ بتاء التانیث کیونکہ اس کا فاعل شَفَاعَۃٌ ہے جولفظاً مؤنث ہے اس لیے فعل کا مؤنث لانا بھی بلاشبہ درست ہے ۔ فیا سبحان اللہ ٭ مثال نمبر۵:بقرہ رکوع نمبر۶ وَاَحَاطَتْ بِہٖ خَطَیْئَتُہُ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح بالتوحید ،کیونکہ خطیئہ سے مراد کفر اور جنسِ کبائر ہے دوسری خَطِیئٰتُہ بالجمع، کیونکہ خطیئات سے مراد کبیرہ گناہ ہیں جو متعدد ہیں نیز کفار بہت سے ہیں جن پر آیت کا آخر فَاُولٰئِکَ أَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ دال ہے یا کفر پر قائم رہنے کو بار بار گناہ کے مرتبے میں قرار دیا گیا ہے۔ فیا سبحان اللہ۔ ٭ مثال نمبر۶:بقرہ رکوع نمبر۱۵ فَاُمَتِّعُہُ میں دوقراء تیں ہیں ایک اسی طرح بتشدید التاء ،باب تفعیل سے ، جو کثرت پر دال ہے یعنی’’میں کافروں کو تھوڑے زمانے اورصرف دنیوی زندگی کی حد تک خوب سامان عیش دوں گا‘‘ دوسری فَاُمْتِعُہُ بتخفیف التاء ،باب افعال سے اور یہ قَلِیْلاً کے مناسب ہے جو بعد میں آر ہا ہے یعنی ’’بمقابلۂ نعمائے آخرت میں کافروں کو صرف دنیوی زندگی کا تھوڑا بہت سامان عیش دونگا‘‘ حاصل یہ ہے کہ تکثیر بلحاظ نعمائے دنیا اور تقلیل بمقابلۂ نعمائے آخرت ہے ،ظاہر ہے کہ دونوں ہی قراء تیں اپنی اپنی جگہ بر حق ہیں ۔ فیا سبحان اللہ ٭ مثال نمبر۷:بقرہ رکوع نمبر۱۶ اَمْ تَقُوْلُوْنَ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح بتاء الخطاب، اس میں ماقبل کے چار خطابات قُلْ اَتُحَاجُّوْنَنَا،وَرَبُّکُمْ،وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ اور بعد کے دو خطابات ئَ أَنْتُمْ ،عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ان چھ ضمائرِ خطاب کی رعایت ہے دوسری أَمْ یَقُوْلُوْنَِ بیاء الغیب ، اس میں ماقبل کی پانچ ضمائرِ غیب فَاِنْ اٰمَنُوْا،فَقَدِ اہْتَدَوْا، وَإِنْ تَوَلَّوْا، فَإِنَّمَا ہُمْ ،فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہ کی رعایت ہے نیز اس میں قل أتحاجّوننا وغیرہ کے خطابات کے لحاظ سے خطاب سے غیب کی طرف التفات کی خوبی بھی پائی جاتی ہے جیساکہ سورۂ یونس رکوع نمبر۳ میں ﴿حَتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلکِ﴾ کے بعد ﴿وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ ﴾میں بھی خطاب سے غیب کی طرف التفات ہے ۔ فیاسبحان اللّٰہ ! ٭ مثال نمبر۸:بقرہ رکوع نمبر۲۸ ﴿وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ﴾میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح حَتّٰی یَطْہُرْنَ باب کَرُمَ سے، اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’حیض والی عورتوں سے صحبت اس وقت جائز ہے جبکہ خون کی بندش کے ذریعہ بس نفسِ طہر انہیں حاصل ہو جائے۔‘‘ یہ ان عورتوں کے بارے میں ہے جن کا خون پورے دس دن پر بند ہوا ہو، دوسری حَتّٰی یَطَّہَّرْنَ بابِ اِفَّعُّل سے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ’’ حیض والی عورتوں سے صحبت اس وقت جائز ہے جبکہ وہ خوب پاک صاف ہو جائیں ‘‘یعنی خون کی بندش کے بعد غسل بھی کرلیں ، کیونکہ تخفیف کے مقابلہ میں تشدید معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے، یہ ان عورتوں کے متعلق ہے جن کاخون دس دن سے کم پر بند ہوا ہو ان سے بغیرغسل کیے صحبت جائز نہیں اس طرح دوقراء توں میں سے ہر قراءت ایک مستقل حکم اورمعنیٰ پر دلالت کر رہی ہے۔ فیاسبحان اللّٰہ ! ٭ مثال نمبر۹:نساء رکوع نمبر۱۳ ﴿یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْل اللّٰہ فَتَبَیَّنُوْا﴾ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح فَتَبَیَّنُوْا ، اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ’’کسی نو مسلم کو جلد سے قتل نہ کردو بلکہ تحقیق کر لو۔‘‘ دوسری فَتَثَبَّتُوْا
Flag Counter