Maktaba Wahhabi

249 - 933
دوروں میں دی جوہر رمضان المبارک میں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے مثلا ووصیٰ بہا، وأوصیٰ بہا ، لئن أنجٰنا، لئن أنجیتنا ، ولا تُسْئل ، ولا تَسْئل وغیر ذٰلک۔ اور ظاہر ہے کہ ایک ہی مضمون ومقصد کو مختلف پیراؤں میں بیان کرنا علم فصاحت وبلاغت اورعلم بیان کی خوبیوں میں سے ہے لہٰذا قرآن کریم کو ایسی خوبیوں سے بھی خالی نہیں رکھا گیا ۔ پھر حدیث سبعہ احرف کے علاوہ ایسے فرش الحر وف کی بابت بعض دیگر جزوی وارد روایات واحادیث بھی ثابت ہوئی ہیں جو سنن ابی داؤد اورجامع الترمذی کے ابواب القراآت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں مثلاً مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ، تَغْفِرْلَکُمْ خَطیٰکُمْ، والعینُ بالعین، ہَلْ تَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ، فَلْتَفْرَحُوْا ، ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا تَجْمَعُون ، إنَّہٗ عَمِلَ غَیرَصالحٍ ، فِی عَیْنٍ حَامِیَۃٍ ، فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ، لَا یُعَذَّبُ عَذَابَہُ، ولا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗ۔ یہ تمام فرش الحروف اورقراءات مختلفہ ،جزوی احادیث وروایات سے بھی ثابت ہیں ۔اوریہ اختلاف ،لغات واصول اورفروش کلیہ کے علاوہ غیبت وخطاب سے ،توحید وجمع ،تبدل حروف حرکات ،تفنن تعبیرات اورتنوع تراکیب نحویہ وغیرہ کے لحاظ سے ان فرش الحروف اورجزوی اختلافات کے اعتبار سے ہے جو اعجاز قرآنی وتفنن عبارات کی خوبی کے موافق متعدد وجوہ اورمختلف طرق بیان کی شکل میں مستقلاً نازل ہوئے ہیں ۔ مختلف قرا آت کی متنوع ومعجزانہ توجیہات وتعبیرات کی چند مثالیں : ٭ مثال نمبر۱: بقرۃ رکوع نمبر۲ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ میں دو قراء تیں ہیں ۔ ایک اسی طرح بابِ ضَرَبَ سے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’منافقین کے لئے دردناک عذاب ہے بسبب اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے‘‘ دوسری بِمَا کَانُوْا یُکَذِّبُوْنَ باب تفعیل سے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’بسبب اس کے کہ وہ جھٹلاتے بھی تھے۔ فیا سبحان اللّٰہ ! ٭ مثال نمبر۲: بقرہ رکوع نمبر۴ فَأزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا میں دو قراء تیں ہیں ۔ ایک اسی طرح فَاَزََلَّہُمَا ازلال سے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اورحوا [ دونوں کو جنت سے پھسلا دیا ‘‘ دوسری فَاَزَالَہُمَا ازالہ سے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’شیطان نے ان دونوں کو جنت سے ہٹا دیا او ردور کر دیا۔ پس ان کی اس عیش سے نکال دیا جس میں وہ تھے‘‘ ظاہر ہے کہ پھسلانے کے نتیجے ہی میں دونوں کو جنت سے نکالا گیا لہٰذا دونوں قرا ء توں کی تعبیرات کاحاصل مفہوم ایک ہی ہو۔ا فیاسبحان اللہ! ٭ مثال نمبر۳:بقرہ رکوع نمبر۴ ﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ ﴾بنصب اٰدَمُ ورفع کَلِمٰتٌ۔میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح برفع ِ اٰدَمُ ونصب کَلِمٰتٍ ۔ جس کے معنی یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کی جانب سے کچھ دعائیہ کلمات حاصل کر لئے۔ دوسری فَتَلَقّٰی اٰدَمَ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٖتٌ بنصب اٰدم ورفع کَلِمٰتٌ۔ جس کا معنی یہ ہیں کہ’’آد م علیہ السلام کو اپنے پروردگار کی جانب سے چند کلمات حاصل ہو گئے ‘‘ پہلی قراءت حضرت آدم علیہ السلام کی گریۂ و زاری کے لحاظ سے ہے جبکہ دوسری قراءت بارگاۂ الٰہی میں اس گریۂ و زاری کی قبولیت اور پھر اس کے نتیجے میں عطاءِ کلمات کے ذکر پر مشتمل ہے۔ فیاسبحان اللہ۔ ٭ مثال نمبر۴:بقرہ رکوع نمبر۶ وَلَایُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح وَلَایُقْبَلُ بیا التذکیر،کیونکہ شَفَاعَۃٌ کی تانیث غیر حقیقی اورصرف لفظی ہے اورفعل وفاعل میں منہا کا فاصلہ بھی ہے اس لیے اس کو
Flag Counter