Maktaba Wahhabi

246 - 933
عقیل اسد قیس کا اور خالص کسرہ قریش وبنی کنانہ کا لغت ہے ، یاآت زوائد مثلاً یوم یأت لا تکلم اور وَجْہِیَ اللّٰہ وَمَنِ اتَّبع نے وغیرہ میں یا کا اثبات حجازی او رحذف ہذلی لغت ہے، یٰأیُّہ السّٰحرُ وغیرہ میں ہا کا ضمہ بنی اسد کا لغت ہے ، بزِعمہم میں زا کا کسرہ بعض بنی تمیم وقیس کا لغت ہے ، یَقْنُط میں نون کا ضمہ بھی بعض تمیم وقیس کا لغت ہے (جو باب نَصَرَ سے ہے) قیل کی بجائے قُولَ بنی فقص کا لغت ہے ، ردّوا ،ردّت میں را کاکسرہ اور غیر اٰسن کی بجائے غیر یاسن بنی تمیم کا لغت ہے ، علیٰ ہذا : ماہذا بشرا بلغت ِ ہذیل ،انّ کی بجائے عنّ بلغتِ تمیم ،اعطٰی کی بجائے انطی بلغتِ سعد بن بکر وہذیل وغیرہ، أنک کی بجائے عنک بلغتِ قیس و اسد(وغیر ذلک ) یہ وہ اَحادیث ہیں جن میں یہ تذکرہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تخفیف وتسہیل اُمت کی غرض سے بار بار حضرت جبرائیل علیہ السلام کودربار الٰہی میں واپس بھیجا اور مزید حصولِ تخفیف کی دعاء ودرخواست فرمائی اور اولا جبرائیل امین علیہ السلام ایک حرف کی پھر دوحرف ولغات کی اس کے بعد تیسری مرتبہ میں سبعہ احرف بمعنی سبعہ لغات ولہجاتِ عرب کی اجازت لے کر آئے مثلا: یا أبي أرسل إلی أن أقرأ القرآن علی حرف فرددت إلیہ أن ہوّن علی أمتی فرُدَّ إلیّ الثانیۃ اقرأہ علی حرفین فرددت الیہ أن ہوّن علی أمتي فرد إلیّ الثالثۃ اقرأہ علی سبعۃ أحرف [صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ المسافرین باب بیان أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، نیز نسائی ، طبری، مسند أحمد ،مسند أبي داؤد الطیالسی، سنن البیہقي] نیزیہ وہ اَحادیث ہیں جن میں مطلق ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کے الفاظ کے بعد کلہا شافٍ کافٍ ا ٓیا ہے(مثلاً مسند کبیر ابی یعلی میں حدیث سیارہ بن سلامہ عن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما ) یاأیّہا قرأت أجزاک کے الفاظ وارد ہوئے ہیں (مثلا مسند احمد میں حدیث اُم ایوب الانصاریۃ رضی اللہ عنہا ) اہل عرب کو سہولت وآسانی کے لئے قرآن کریم کو نقل وروایت اورتلقی ومشافہت کی روشنی میں سات لہجات ولغات میں قراءت کرنے کی اجازت دی گئی کہ ان سات لغات والے قبائل میں سے ہر قبیلے کو اپنے لغت کے مطابق تلاوت کرنے کی اجازت ورخصت دے دی گئی۔ امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق وہ سات لغات یہ ہیں : ۱۔ قریش ۲۔ ہذیل ۳۔ ثقیف ۴۔ ہوازن ۵۔ کنانہ ۶۔ تمیم ۷۔یمن اوربقول ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ سات لغات یہ ہیں : ۱۔ قریش ۲۔ خزاعہ ۳۔ سعدبن بکر ۴۔ جشعم بن بکر ۵۔نصر بن معاویہ ۶۔ثقیف ۷۔بنی درام [فضائل القرآن للامام أبی عبید :ص۲۰۴] قرآنی چیلنج ہر لغت والے کو تھا، لغاتِ عرب سب کی سب بالجملہ ایک ہی’لسان عربی‘ کی مصداق تھیں ، سات لغات سے قرآن کریم پورے عرب کے لئے آسان ہو گیا، بلا اجازت سبعہ احرف دعوت اسلامیہ کامیاب نہ ہو سکتی تھی،نیز مختلف لغات و قرا ء ات سے قرآنی معجزہ کا اظہار ہوتا ہے کہ باوجود لفظی اختلاف کے باہم تخالف نہیں پایا جاتا۔ سبعہ لغات پر نزول قرآن ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ ،﴿یُرِیْدُ اللّٰہ بِکُمُ الْیُسْرَ﴾﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہ نَفْسًا إلَّا وُسْعَہَا﴾، ﴿وَمِنْ آیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضِ وَاخْتِلَافُ ألْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ﴾ ان آیات قرآنیہ کے بمصداق ہوا۔ اُمیت(ناخواندگی ونانوشتگی) عرب کا مشہور وصف تھا ،اُمیین کے لئے بالخصوص ایک
Flag Counter