۱۔ حدیث ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ مرفوعا: أن جبرائیل علیہ السلام قال: یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم إقرأ القرآن علی حرف قال میکائیل علیہ السلام استزدہ قال: أقرأہ علی حرفین قال میکائیل علیہ السلام استزدہ فاستزادہ حتی بلغ سبعۃ أحرف قال: کل شافٍ کافٍ آیۃ عذاب برحمۃ أو آیۃ رحمۃ بعذاب، نحو قولک تعال وأقبل وہلم و اذہب وأسرع وعجل [مصنف ابن أبی شیبۃ والطبری والطبرانی واللفظ لأحمد، مسند احمد:۵/۵۱ المطبعۃ المیمنیۃ] ’’حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! قرآن کو ایک حر ف پر پڑھیے حضرت میکائیل علیہ السلام نے عرض کیا زیادتی کا مطالبہ فرما لیجئے۔چنانچہ حضور علیہ السلام نے زیادتی کا مطالبہ فرمایا ،جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا دو حروف پر پڑھیے، میکائیل علیہ السلام نے دوبارہ عرض کیا۔مزید کا مطالبہ فرما لیجئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطالبہ فرمایا اسی طرح ہوتا رہا حتی کہ سات احر ف تک نوبت پہنچ گئی، جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یہ سب کافی وشافی ہیں جب تک کہ آپ عذاب والی آیت کو آیتِ رحمت کے ساتھ یا رحمت والی آیت کو آیت ِ عذاب کے ساتھ تبدیل نہ فرمائیں گے اور ان سبعہ احرف کی مثالیں یہ ہیں تَعَال،أَقْبِل،ہَلُمَّ ،اذْہَبْ،أَسْرِع، عَجِّل(سب کا مفہوم واحد ہے) ‘‘ ۲۔ قول ابن مسعود رضی اللہ عنہ :کقول أحدکم ہلم وتعال [تفسیرالطبری:۱/۴۵] ۳۔ أثر ابن عباس رضی اللہ عنہما :أن أبي بن کعب کان یقرأ کلما أضاء لہم مشوا فیہ مروا فیہ سعوا فیہ [تفسیر القرطبی:۱/۳۲] ۴۔ أثر ابن عباس رضی اللہ عنہما أیضا: أن أبي بن کعب کان یقرأ للذین آمنوا انظرونا للذین آمنوا أمہلونا للذین امنوا أخرونا للذین آمنوا ارقبونا [حوالہ بالا] ۵۔ أثر أنس بن مالک رضي اللّٰه عنه: قرأ إن ناشئۃ اللیل ہي أشد وطأ وأصوب قیلاً ’’فقیل لہ:إنما نقرأ ’وأقوم قیلا‘ فقال أنس: ’وأصوب قیلا‘ ’ وأقوم قیلا‘ ’وأہیا قیلا‘ واحدٌ [تفسیر القرطبی:۱/۳۶] ۶۔ جن احادیث میں ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف علیماً حکیما غفورًا رحیماً‘‘(مصنف ابن أبی شیبۃ،طبری،أحمد من حدیث أبی سلمۃ عن أبی ہریرۃ) وارد ہوا ہے ان کا بھی ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ابتداء اسلام میں اسماء الٰہیہ کی تبدیلی کی اجازت تھی جو بعد میں موقوف ہو گئی ہے۔ چہارم: وہ احادیث جن میں تسہیل اُمت ہی کے لئے سبعہ احرف بمعنیٰ’سبعہ لغاتِ عرب‘ پر نزولِ قرآن کا تذکرہ ہے جنہیں قراء واہل فن اپنی اصطلاح میں ’اصول ‘ اور ’فروش کلیہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں (مثلا امالہ نجد میں تمیم قیس کا اور فتح حجازکا لغت ہے۔ فُعْلٌ میں عین کلمہ کا ضمہ حجازی اور سکون تمیمی اَسدی قیسی لغت ہے۔ ضَعف میں ضاد کا فتحہ تمیمی اورضمہ حجازی واسدی لغت ہے۔ حتّٰی کی بجائے عتّٰی ہذیل کا لغت ہے۔ تعلمون،اعہد وغیرہ میں علامتِ مضارع کاکسرہ اسدی لغت ہے ، ہمزۂ ساکنہ کاابدال قریشی اور اس کی تحقیق تمیمی لغت ہے ، لمبی تا رحمت، نعمتَ وغیرہ پر وقف بالہاء قریشی اور وقف بالتا بنی طے کا لغت ہے، بِزَعْمِہِم میں زا کا فتحہ حجازی اور ضمہ اسدی لغت ہے ، یَقْنَطُ میں نون کا فتحہ عام اہل نجد کا او ر کسرہ اہل حجاز واسد کا لغت ہے ، مَنْ یرتَد میں اسی طرح ادغام تمیمی اورمَنْ یَرْتَدِد بالاظہار حجازی لغت ہے، خُطُوٰت میں طا کا ضمہ حجاز و اسد کا اور سکون تمیم وبعضِ قیس کا لغت ہے قیل وغیرہ میں اشمام |