Maktaba Wahhabi

244 - 933
معرفت ہے کہ ظاہری معنی کا مقام ادراک ’ادب عربی‘ ہے اور باطنی تفسیری کا مقام اِدراک ’حدیث وبیان نبوی ہے۔ اور اس تفسیری معنی کے توابع(اسرار بلاغت،خواص وکیفیاتِ آیات،فوائد معارف ،احکام فقہ، مسائل سلوک) کا مقام اِدراک یہ ہے کہ کسی مردِ کامل کے سامنے پامال ہو کر ’ریاضت‘ کے ذریعہ غرور وپندار اور خود بینی سے ’نفس کا تزکیہ‘ کیا جائے پھر ’تقویٰ وطہارت اورقرب خداوندی ‘ کے نتیجے میں خاص وہبی علوم ومعارف اور الہامی وَلَدُنّی مواہب وعطایائے ربانیہ دریچئہ غیب سے حاصل کی جائیں ،بالخصوص کیفیاتِ آیات مثلاً یہ کہ عذاب کے موقع پر دل لرزاں وترساں ہو جائے اس کا ذریعۂ حصول یہ ہے کہ اولاً تلاوت کے انوار واَحوال وآثار سے اعضائے بدن پر کپکپی طاری ہو جائے پھر ثانیاً دل خشیت وخشوع کے غلبہ سے لرز اٹھے اور اس پر رقت کی خاص وجدانی کیفیت طاری ہو کر گریہ غالب آجائے جو دراصل باطنی انقلاب کا عنوان ہے نیز یہ کہ تلاوتِ قرآن سے عجب وخود پسندی اور خواہشِ نفسانی سلب ہوکر اس پر یقین وعجز کا نتیجہ مرتب ہو جائے ، کما قال اللہ تعالیٰ: ﴿تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَّقُلُوبُہُمْ إلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ﴾ [الزمر:۲۳] ’’کتاب اللہ کی عظمت سے ان لوگوں کی کھالیں لرز کر ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل یعنی قلب وقالب دونوں اللہ کی یاد کے سامنے نرم پڑ جاتے ہیں اور جھک جاتے ہیں ۔‘‘ دوم:وہ اَحادیث جن میں سبعہ ابواب جنت سے ’سبعہ انواعِ مضامین‘ پر نزول قرآن کا تذکرہ ہے، ان اَحادیث میں سبعہ احرف بمعنی سبعہ انواعِ مضامین قرآن ہے، مثلاً حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ مرفوعا: ’’إن الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد ونزل القرآن من سبعۃ أبواب علی سبعۃ أحرف زاجر وآمر وحلال وحرام ومحکم ومتشابہ وأمثال‘‘ [تفسیر الطبری: ۱ /۵۳] یعنی پہلی کتب سماویہ صرف ایک ایک جنتی دروازے سے صرف ایک ایک مضمون پر ہی مشتمل ہو کر نازل ہوئی ہیں (مثلا زبور میں صرف تذکیر وموعظت کا اور انجیل میں صرف مجد وثناءِ باری کا ذکر تھا) لیکن قرآن کریم سات جنتی دروازوں سے سات قسم کے مضامین پر مشتمل ہو کر نازل ہوا ہے، وہ یہ ہیں : ۱۔ ترک منہی ۲۔ علم بالأمر ۳۔ تحلیلِ حلال ۴۔ تحریمِ حرام ۵۔ علم بالمحکم ۶۔ إیمان بالمتشابہ ۷۔ اتّعاظ بالأمثال اسی قسم کا قول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ موقوفاً بھی مسند احمد: ۱/۴۴۵ میں منقول ہے۔ سوم:وہ اَحادیث جن میں ابتداء ً تسہیل اُمت کے لئے ’سبعہ کلمات مترادفات‘ کے مطابق قراءت قرآن کی اِجازت کا تذکر ہ ہے، لیکن بعد میں یہ اجازت عرضۂ اَخیرہ سے بھی قبل منسوخ وموقوف ہو گئی اب قراءت بالمترادفات کی قطعٰاً ممانعت ہے۔ یہ وہ اَحادیث ہیں جن میں ہلُّمَ، تَعَال،أَقْبِل وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے نزدیک جو ’سبعہ احرف‘ بمعنیٰ’ سبعہ کلمات ولغات مترادفات‘ ہے ان کے اس قول کا مصداق اسی قسم کی اَحادیث کو قرار دینا ضروری ہے۔ ’سبعہ احرف‘ بمعنی سبعہ مترادفات والی چند اَحادیث حسب ذیل ہیں :
Flag Counter