Maktaba Wahhabi

241 - 933
کے جدول حسابی اورضرب وغیرہ سے واقف نہ تھا۔ لہٰذا اس طریقہ کو محققین اختیارنہیں کرتے اور انہوں نے اس کو مستحسن نہیں گرداناسوائے اس کے کہ تعلیم مقصود ہو،کیونکہ قراءات کی تعلیم کے دوران ان کی مشق اوراجراء کے لیے یہ طریقہ از حدمفید ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ متعلم دوران حفظ کسی سورت کے ختم ہوجانے کی حالت میں ایک ایک کرکے ان قراءات کے اجراء کو مکمل نہیں کرسکتا بلکہ مختصر وقت کے پیش نظر اس کو جملہ وجوہ و روایات کو جمع کرکے پڑھنا ہوتا ہے۔ اس تمام بحث کی وضاحت کے لیے جس سے یہ بحث جلدذہن نشین ہوجائے، ہم درج ذیل مثال سے اسی معاملہ کو واضح کرتے ہیں ، جس طرح﴿ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ہے۔اس عبارت میں الرحیم کی یاء کے لیے بحالت ِ وقف مد سے تین وجوہ پڑھی جاسکتی ہیں یعنی یا تو یہاں قصر ہو یا توسط، یاپھر اشباع! اس کے بعد الرحیم کی میم اورملک کی میم کے مابین دو صورتیں بحالت ِوصل ہیں ۔ ادغام کے ساتھ یاپھر عدم ادغام سے، نیز ہردو حالتوں میں یہ بھی ملحوظ رہے کہملک میں بھی دو طریقے(یعنی الف کے ساتھ یابغیر الف کے ناجائز ہیں ۔ چنانچہ اب جب آپ ان سب وجوہ کو(صرف انہیں وجوہ کا اہتمام کرتے ہوئے جن کو ہم نے ذکر کیا ہے )جمع کریں تو سات وجوہ بنتی ہیں ،لیکن یہ سات وجوہ ایک کلمہ میں نہیں بلکہ دو کلمات کو ملانے کی صورت میں ہیں ، کیونکہ کلمہ ’رحیم‘کی اپنی وجوہ تو صرف تین یعنی بصورتِ مد عارض ہیں جبکہ ’مٰلِکِ‘ کی ذاتی وجوہ دو(الف اور بغیر الف کے) ہیں ۔ اور دونوں کلموں کو ملانے پر دو وجہیں مزید ہیں ۔ چنانچہ کسی کلمہ کی وجہ کو گنتے ہوئے(کہ آیاوہ سات سے زیادہ ہیں یا کم؟) دوسرے کلمہ کے ساتھ ملنے کے وجہ سے پیدا ہونے والی وجوہ کو ساتھ نہیں شامل کیا جائے گا بصورت دیگر آپ قراء کے حسابی جدولوں (جو کہ طلسم افلاک کے مشابہ ہے) میں واقع ہوجائیں گے۔ اسی طرح ﴿فَتَلَقیّٰ اٰدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلِمٰتٍ﴾ کی مثال ہے۔ اس مقام پر فرش [’فرش‘قراء کی اصطلاح میں قراءات میں ہونے والی ایسی تبدیلی کو کہتے ہیں جو اکثر تبدیلیوں کے لیے قراء کے وضع کئے ہوئے اصول و ضوابط قراءات کے تحت نہیں آسکی۔ یعنی قراء نے متعدد بار واقع ہونے والی تبدیلیوں کے لیے استقراء کے بعد کچھ مخصوص قواعد(مثلاً مدو قصر، تحقیق و تسہیل وابدال اور فتح و امالہ وغیرہ) وضع کئے ہیں تاکہ ان قواعد کے ذریعے قراءات کا احاطہ کیا جاسکے لیکن جو تبدیلی کسی ایسے ضابطے کے تحت نہ آسکے اور فرداً فرداً اس کو یادکیاجائے، اسے فرش کہا جاتا ہے۔] سے ’آدم‘ کے لفظ پرنصب اور’کَلِمٰتٍ‘ پررفع ہے۔یہ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی قراءت ہے جبکہ دوسروں نے اس کے برعکس پڑھا ہے۔ سو اس مقام پر دو وجوہ تو یہ ہوئیں ۔پھر’فَتَلَقّٰی‘کے الف میں تین وجوہ(فتح، امالہ اور تقلیل) پڑھی جاتی ہیں ، علاوہ ازیں ’ آدم‘ کے لفظ میں الف میں بھی تیں وجوہ یعنی طول، توسط اور قصر ہیں ۔چنانچہ اس جملہ کی مجموعی وجوہ ۱۰ ہوئیں ۔ لیکن وجوہ کو یوں جمع کرنا صحیح نہیں ، نہ ہی قراء اس کی اجازت دیں گے بلکہ اگر ان کے حساب اور طریقے پر چلا جائے اور ہرکلمہ کی وجوہ کو باہم ضرب دیں تو آپ کے سامنے وجوہ کی ایک بڑی تعداد آجائے گی جس کے بعد آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ’’میری اُمت پر آسانی فرمائیے‘‘ [انظر غیث النفع، ص:۴۷] کوبھولنا چاہیں گے۔ الغرض ایک جملہ میں وجوہ کی تعداد اَن گنت ہوسکتی ہے یعنی غیرمحدود ہے، لیکن ایک ہی کلمہ میں انفرادی طورپر
Flag Counter