۱۔ ج اور راء کے کسرہ کے ساتھ۔ہمزہ کو حذف کرنے اور یاء کو باقی رکھنے کی صورت میں ! یہ نافع، ابوعمرو، ابن عامر اور حفص کی عاصم رحمہم اللہ سے روایت ہے۔جِبْرِیْلَ ۲۔ ج کے فتحہ اور راء کے کسرہ کے ساتھ، یاء کو باقی رکھتے ہوئے ہمزہ کے حذف کی صورت میں ابن کثیرمکی رحمہ اللہ کی یہ روایت ہے۔ جَبْرِیْلَ ۳۔ جیم اور راء کے فتحہ کے ساتھ، ہمزہ مکسورہ کے اثبات اور یائے ساکنہ کے ساتھ یہ حمزہ،کسائی اور خلف رحمہم اللہ کی مختار قراءت ہے۔ جَبْرَئِیْلَ ۴۔ تیسری صورت لیکن ہمزہ مکسورہ کے بعد یاء کے حذف کے ساتھ۔ یہ قراءت ہے یحییٰ بن آدم رحمہ اللہ کی ابی بکر بن عیاش عن عاصم کے طریق سے۔ جَبْرَئِلَ ۵۔ پانچویں قراءت حمزہ رحمہ اللہ کی ہے جس میں وقف کے ساتھ ساتھ ہمزہ کی ’’تسہیل بیَن بیَن‘‘ ہے۔ یہاں دو وجوہ ایسی اور بھی ہیں جن پر قراءات نہیں کی جاسکتی، پہلی وجہ کو حسن بصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ حذف اور ہمزہ مکسور سے قبل الف کے اثبات یعنی’جَبْرَائِلَ‘‘ ! دوسری صورت ’ابن محیصن‘کی ’مبہج‘ سے مروی ہے جوکہ جیم و راء کے فتحہ ہمزہ مکسورہ اورلام مشدد کے ساتھ ہے۔یعنی جَبْرَئِلَّ یہ جملہ وجوہ ملاکر سات ہوئیں ۔ جن میں صرف ۵ وجوہ متواتر ہیں ۔ اسی طرح ’’مِیْکٰلَ‘‘ میں ۴ وجوہ متواتر ہیں ۔’’مَیْکَائِلَ‘‘ یعنی الف کے بعد ہمزہ ہو لیکن ہمزہ کے بعد ’ی‘ موجود نہ ہو دوسری وجہ یہ ہے کہ مِیْکَالَ کو بروزن مِثْقَالَ کے مِیْکَالَ پڑھاجائے۔ تیسری وجہ ہمزہ اور یاء دونوں کے اثبات کے ساتھ یعنی مِیْکَائِیْلَ اور اس کی چوتھی وجہ حمزہ رحمہ اللہ کے نزدیک وقف کی حالت میں ہمزہ کو تسہیل سے پڑھنا ہے۔ یہاں ابن محیصن رحمہ اللہ کے لیے ایک وجہ اور بھی ہے جو کہ پڑھی نہیں جاتی اور وہ ہے کہ میکائیل کو ہمزہ کے ساتھ یاء کے بغیر اور لام کی تشدید سے یعنی مِیْکَئِلَّ پڑھا جائے اور یہ مبہج کے طریق سے ابن محیصن رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ ۳۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہم نے سبعہ احرف یا سبعہ وجوہ کو ایک کلمہ کے ساتھ خاص اور مقیدکردیا ہے یعنی سات وجوہ کے ہونے کو کسی کلمۂ واحدہ کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی کلمہ واحدہ میں زیادہ سے زیادہ سات وجوہ ہوسکتی ہے لیکن چند ایک کلمات کوملا لینے سے وجوہ کی تعداد کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔ چنانچہ سبعہ وجوہ کے ساتھ کلمۂ واحد کی شرط سے دراصل اُن بے شمار طرق سے ان وجوہ کوممتاز کرنا مقصود ہے جنہیں مختلف کلمات کے جوڑنے کے بعد قراء ثابت کرتے ہیں ۔ آپ بھی جب متعدد کلمات کو جوڑ کر وجوہ قراءات کااندازہ کریں گے تو وجوہ کے باہم ضرب کھانے سے یہ بھی ممکن ہے کہ وجوہ کی تعداد ایک جملہ یا عبارت میں ۱۰۰ تک بھی جاپہنچے۔ چنانچہ اس حسابی جدول اور ضرب کے عمل کے نتیجے میں قراء کرام سورۃ الفاتحہ کوسورۃ البقرہ سے ملانے کی صورت میں ۱۱۷ وجوہ [قارن بما فی غیث النفع، ص:۲۸] بتاتے ہیں ۔ اسی طرح کسی بھی صورت کے خاتمے پرعموماً وجوہ کی یہ تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، لیکن خیال رہے کہ وجوہ میں یہ طریقہ سلف کے راستے سے ہٹ کر ہے بلکہ ایساکرنا ایک بدعت ہے اور اس کی ابتداء پانچویں صدی ہجری کے بعد ہوئی ہے۔پانچویں صدی ہجری سے قبل کوئی اس طرح وجوہ |