٭ (اُفٍّ )لفظ قرآن میں تین مقامات پر آیاہے۔سورہ الاسراء، انبیاء اور الاحقاف میں ۔ اس میں تین وجوہِ قراءت جائز ہیں ۔ پہلی وجہ ہے ’اُف‘ میں ف پر شد دوزیروں کے ساتھ، یہ نافع رحمہ اللہ کی روایت ہے، حفص رحمہ اللہ کی عاصم رحمہ اللہ سے روایت ہے اور ابوجعفر رحمہ اللہ کی بھی یہی روایت ہے۔ دوسری وجہ فاء پرفتحہ بغیرتشدید ۔ یہ ابن کثیر، ابن عامر اور یعقوب رحمہم اللہ کی قراءت ہے۔جبکہ اس میں تیسری وجہ فاء کے کسرہ سے بغیر تنوین کے ہے اور یہ باقی دس کی قراءت ہے۔سو اس راستے کو اختیارکرنے پر آپ کو بخوبی معلوم ہوسکے گا کہ قرآن میں اختلاف قراءات والے مقامات میں بھی سات سے زیادہ وجوہ کبھی ممکن نہیں ۔ اس بحث کے بعد ہم سیوطی رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ ’’اس اصول پر اشکال یہ پیداہوتا ہے کہ قرآن میں بعض کلمات ایسے بھی ہیں جو سات سے زیادہ وجوہ پر تلاوت کئے جاسکتے ہیں ۔‘‘ [دیکھیں صفحہ:۱۷۱] اس قول کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ یہ قول تحقیق سے بعید ہے اور حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں ۔ حیرانگی والی بات یہ ہے کہ قول رابع پرتعاقب سے صرف دو، تین سطر پہلے سیوطی رحمہ اللہ نے قول ثالث پر جن الفاظ کے ساتھ تعاقب کیاہے، ان کے یہ دونوں تعاقب بھی باہم متضاد ہیں ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ سبعہ حروف سے مراد سبعہ قراءات ہیں ۔اس پرسیوطی رحمہ اللہ کاتعاقب یہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی بھی ایساکلمہ نہیں (سوائے چند ایک کلمات کے ) جو سات وجوہ پر پڑھا جاسکتا ہو اوروہ چند کلمات بھی انتہائی کم ہیں ۔ بطورِ مثال ﴿عَبَدَ الطّٰغُوْت﴾اور ﴿فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ﴾ کے کلمات ایسے ہیں جن میں سات وجوہ جائز ہیں ۔لہٰذا سیوطی رحمہ اللہ کاتیسرے قول پر تعاقب اور چوتھے قول پرتعاقب دونوں باہم متناقض ہیں کہ ایک جگہ وہ ایسے کلمات کاوجود بتا رہے ہیں جن میں سات سے زیادہ وجوہ بھی ممکن ہیں جبکہ اس سے چند سطریں قبل سات حروف والے کلمات کی تعداد بھی بہت محدود کہہ رہے ہیں ۔ ۲۔ کوئی شخص پھر بھی ہمارے قول پر سیوطی رحمہ اللہ کے ان اقوال سے یہ اعتراض کرسکتا ہے۔چنانچہ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ :سب سے پہلے تو قرآن میں ایساکلمہ ہی کوئی نہیں جس کو سات وجوہ پر پڑھا گیا ہو۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ سبعہ حروف میں سے ایک اہم تعداد کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیاگیاتھا اور اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل پر دو مرتبہ قرآن کی تلاوت کرکے بذریعہ نص قرآن کی آخری قراءات کو ثابت کردیا اور آیات کی ترتیب، گنتی اور منزل وجوہ کی حتمی تعیین کردی۔چنانچہ اس میں کوئی بھی ایساحرف باقی نہیں رہا جو مواضع اختلاف میں چھ وجوہ سے زیادہ پر تلاوت ہوسکے۔لہٰذا اب قرآن میں کوئی بھی کلمہ ایسا نہیں ہے جس میں چھ سے زیادہ متواتر وجوہ کی تلاوت جائز ہو۔سوائے ان متواتر روایات کے ذریعے ثابت ہونے والی وجوہ کے جو قراء ِ اربعہ نے روایت کی ہیں اور جنہیں ’إتحاف فضلاء البشر‘ میں ’البناء‘نے ذکر کیا ہے۔ ان روایات کی اسانید اگرچہ حد تواتر کونہیں پہنچتیں اور علماء ان پر شاذ قراءات کاحکم لگانے میں متفق ہیں تاہم یہ قراءات صحیح الاسناد ہیں اور اہل فن کے ہاں معلوم طرق سے مروی ہیں ۔ ان قراءات کو شامل کرکے ہم مروی وجوہ کی تعداد کسی بھی حرف میں سات تک کرسکتے ہیں لیکن ان کے شامل ہونے کے بعد بھی کوئی ایساکلمہ نہیں جس میں پھر بھی سات سے زیادہ وجوہ ممکن ہوں ۔مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ [الایۃ:رقم ۹۸] میں جبریل اورمیکائل کے کلمات ہیں ۔ جبریل میں ۵ متواتروجوہ پرقراءت صحیح ہے: |