کے پڑھنے کی کوئی روایت موجود نہیں ۔قرآن کے اکثر اور اہم حصہ کی یہی صورت ہے۔ مواضع اختلاف: ایسے مقاماتِ قرآنی جہاں دو یا اس سے زائد وجوہ پر زیادہ سے زیادہ سات پر) قراءت کرنا جائز ہو۔ ان وجوہ مقروء ۃ کے شمار اور تعیین سے قبل لازم ہے کہ چند چیزیں آپ پر واضح ہوں : ۱۔ قراءات کے ضمن میں ایسا نہیں ہے کہ ہروہ روایت جو کسی نے بیان کی یاکسی جگہ لکھی ہوئی مل گئی یا پھر سند صحیح سے کوئی روایت ثابت ہوگئی تو اس کوقراءات میں شامل کرلیا جائے گا۔بلکہ علماء اسلام کااس امر پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کی کسی قراءت کے ثبوت کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ وہ متواتر ذریعے سے ثابت ہو۔ اس شرط کے ماسوا کسی قراءت کو قرآن میں شامل کرلینے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔چنانچہ جب تک کسی بھی روایت میں تواتر نہ پایاجائے وہ قرآن ہرگز نہیں بن سکتی۔ اس شرط کے بعد علماء کی اکثریت اس امر پر بھی متفق ہے کہ وہ متواتر ذریعے سے ثابت ہونے والی قراء ت، مصاحف عثمانی کے رسم کے مطابق بھی ہو۔ تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری دورمیں جو قراءات منسوخ ہوئیں ان سے بھی قرآن کومحفوظ رکھا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فقط وہی قراءات پڑھنی جائز ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حیات طیبہ میں ثابت فرما دیں ۔ ان دوشروط کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کس قدر قراءات ایسی بچ جاتی ہیں جو ان شروط پر پوری اترتی ہیں بلکہ جملہ قراءات کو تواتر کی شرط پرپورا کرتے ہوئے آپ کو معلوم ہوگا کہ ان قراءات کا دسویں سے بھی کم حصہ باقی رہ جاتاہے، حالانکہ کتب میں قراءات کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر آیت ﴿ملک یوم الدین﴾ میں ابوحیان رحمہ اللہ نے قراءت کی۱۵وجوہ ذکرکی ہیں [البحر المحیط:۱/۲۰] اور ﴿وَعَبَدَ الطَّاغُوْت﴾میں ابوحیان رحمہ اللہ نے لفظ’عبد‘میں ۲۲ قراءات [نفس المصدر:۳/۵۱۹]، ابن خالویہ رحمہ اللہ نے ۱۹[مختصر فی شواذ القرآن، ص:۳۳] اور ابن جنی رحمہ اللہ نے۱۰ قراء ا ت ذکر کی ہیں [المحتسب :۱/۲۱۴]۔اسی طرح ﴿فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ﴾ میں لفظ’اُف‘میں ابوحیان رحمہ اللہ نے۴۰ لغات [البحر المحیط:۶/۲۳]،ابن خالویہ رحمہ اللہ نے۱۱وجوہ[شواذ القرآن،ص:۷۶] اور ابن جنی رحمہ اللہ نے ۸ وجوہ[المحتسب :۲/۱۸] کو ذکر کیاہے۔ چنانچہ ان تین آیات میں اَسانید کی چھان پھٹک اورشروط کو پورا کرتے ہوئے یہ معلوم ہوگا کہ: ٭ (مٰلِکِ)کے لفظ میں ، متواتر قراء تیں دو ہیں ایک تو مَالِکِ یعنی ’میم‘کے بعد الف کے ساتھ ، یہ عاصم، کسائی، یعقوب اور خلف رحمہم اللہ کی قراءت ہے اور دوسری قراءت ملک الف کے بغیر ہے۔ یہ قراءت نافع ، ابوعمرو، ابن کثیر ، ابن عامر ، حمزہ اور ابوجعفر رحمہم اللہ کی ہے۔ ٭ ﴿عَبَدَ الطَّاغُوْت﴾ میں بھی متواتر وجوہ صرف دو ہی ہیں ۔ایک تو ’عَبُدَ الطّٰغُوْت‘یعنی عین اور دال پر فتحہ، باء پرضمہ اور طاغوت کی ت پر کسرہ یہ حمزہ رحمہ اللہ کی قراءت ہے اور دوسری قراءت ہے عَبَدَ الطّٰغُوْت۔ یعنی عین با اور دال کے فتحہ کے ساتھ، طاغوت(کو مفعول بناتے ہوئے) ت پر نصب، یہ قراءت ہے باقی دس ائمہ کی[راجع فی ذلک اتحاف فضلا،البشر:للدمیاطی،البناء] |