(۳)۔ ہمارا یہ قول کہ ’’سبعہ احرف میں لفظ سبعہ سے عددہی مراد ہے‘‘ کی وجہ مختلف حدیث کے الفاظ ہیں کیونکہ احادیث میں سات کے عدد کی صراحت ہے۔ بلکہ تمام احادیث کے راوی حدیث کے اس جزء(علی سبعہ احرف) پر مکمل طور پر متفق ہیں ۔ اسی بناء پر یہ الفاظ حدیث متواتر لفظی کا مقام رکھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں سات کے عدد کی تحدید پر اور بھی دلائل ہیں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ان حروف کی تعداد درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑھائی گئی ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر قرآن پڑھایا میں ہمیشہ اس سے حروف میں زیادتی کاخواہشمند رہا اور وہ بھی اس میں اضافہ کرتے رہے(حکم الٰہی کے ساتھ)، حتیٰ کہ یہ اضافہ سات حروف تک جاپہنچا۔‘‘ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس سے مزید وضاحت اور تفصیل موجود ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی اُمت کو ایک حرف پر قرآن سکھائیے تو آپ سے میں نے زیادتی کا مطالبہ کیا تاکہ اُمت کے لیے آسانی ہو....الخ(دیکھئے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی احادیث کے ضمن میں ) چنانچہ ان احادیث کی روشنی میں (کہ جب درجہ بدرجہ اضافے کا سوال کیاجارہا ہو) سبعہ احرف سے تحدید عدد مراد نہ لینے کی صورت میں تمام تدرج بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتبہ، دوسری مرتبہ، پھر تیسری مرتبہ مسلسل مطالبہ کرتے رہنا اورباربار بارگاہِ الٰہی میں مراجعت کرنا وغیرہ سب کے سب مکمل طور پر اس امر پر دال ہیں کہ سبعہ احر ف میں سبعہ سے تحدید ہی مراد ہو۔ محققین میں سے بعض حاذق علماء نے عدد کی تحدید اور تقیید کرنے والی عبارت(علی سبعۃ احرف)سے ایک لطیف نکتہ اخذ کیا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی احرف کی تقیید یا تحدید کا قصد کیا ہے تو صرف ’’علیٰ‘‘ کے حرف کا انتخاب کیا اورکسی دوسرے حرف کو کسی بھی مقام پر استعمال نہیں کیا؟عین ممکن ہے کہ اس حرف کے ہی خاص استعمال سے آپ شرط کامفہوم واضح کرنے کا قصد رکھتے ہوں ۔ سو مفہوم شرط کو محذوف سمجھنے کی صورت میں عبارت یوں ہوگی کہ: ’’ان تقرأ امتک القرآن باحرف متعددۃ علیٰ الا تتجاوز سبعۃ احرف‘‘ یہ نکتہ بڑا ہی لطیف اور دقیق ہے کیونکہ پیچھے ذکر کئے گئے صریح قرائن و آثار بھی اس کی ہی تصدیق کرتے ہیں ۔(۲۹) [انظر فتح الباری)۹/۲۸] ہمارا یہ قول کہ : (یہاں سبعہ سے عدد مراد ہے) کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ’’کسی بھی لفظ کو مختلف وجوہ سے پڑھنے کی زیادہ سے زیادہ تعداد سات ہوسکتی ہیں اس سے زیادہ نہیں ۔‘‘ ائمہ فن میں سے اس قول کو ابوعبید، ابوالفضل رازی، ابن قتیبہ اور ابو حاتم السجستانی رحمہم اللہ نے اختیارکیاہے اسی طرح اسی طرح محدثین ، قراء اوراُصولیوں کی ایک بڑی تعدادبھی اس کی قائل ہے۔ اس قول کی مخالفت میں سوائے اُس رائے کے جو ابن جریر رحمہ اللہ کی کلام سے سمجھی جاسکتی ہے کوئی اور رائے موجود نہیں ۔چنانچہ ابن جریر رحمہ اللہ کی اس ضمن میں رائے اور اس کی تردید، اسی طرح قاضی عیاض رحمہ اللہ کی رائے کاابطال بھی گذشتہ اوراق میں گزر چکا ہے۔ جس شخص کو قرآن کریم کی قراءت سے کچھ تعلق اور لگاؤ ہے اور وہ اس کی تحقیق کا خواہاں رہتاہے اس سے یہ بات مخفی نہیں کہ قرآن کریم قراءت اور روایت کے اعتبار سے دو اقسام پر منقسم ہے۔ مواضع اتفاق: قرآن کریم کے ایسے مقامات جہاں فقط ایک ہی وجہ پڑھی جاسکتی ہو اور ان میں کسی دوسری صورت |