کے نزول کی وجہ اور بنیادی حکمت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس کا تعلق قراءت سے ہو۔ لہٰذا سبعہ احرف کو اس مفہوم سے بدل کر کسی دوسرے مفہوم میں ڈھالنے کی کوششیں بے جا تصرف اوربلادلیل من مانی کے زمرے میں آتی ہے۔ احرف کی یہی تفسیر رخصت کے لحاظ سے زیادہ قابل قبول ہے، کیونکہ اصل مشقت تو قراءت میں ہی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قراءت کی مختلف وجوہ(منزلہ) کی اجازت عطا کردی اور مکلف کو ان میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے کی اجازت دی کہ اس کی زبان پرجوو جہ بسہولت ادا ہوسکے اور اس کے لہجہ اور لغت کے مطابق ہو، اس کو اختیارکرلے۔سو یہی وہ اختیارہے جس کا شارع حکیم نے اُمت کے لیے ارادہ کیا ہے۔ وجوہ میں اس تعدد کی وجہ سے معانی میں اختلاف یا زیادتی کی قسم کا جو اثر مرتب ہوتاہے،اس طرح کلام میں اغراض و مقاصد کے لحاظ سے جو تبدیلیاں پیش آتی ہیں اور انواع تغایرہ و اختلاف میں جو کچھ رونما ہوتا ہے، اسی طرح ان سبعہ احرف کے ذریعہ اعجاز اور اسرار بلاغت کا جو انکشاف ہوتاہے اور عرب کی فصیح لغات سے جس قدر آشنائی اور ان کے کلام سے آگاہی حاصل ہوتی ہے،....تو مذکورہ بالا تمام اصناف ، اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور ان کی اقسام کو ہم سبعہ احرف کی ذیلی بحثوں میں شمارکرتے ہیں ۔ ان کا اس کے مفہوم کے ادراک اوراس کی تفسیر کی بحث اور اس سے مراد کی جستجو سے کوئی اہم تعلق نہیں بلکہ یہ تمام چیزیں اس کے مفہوم اور تفسیر کو سمجھنے میں ایک خارجی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ۲۔سبعہ احرف کی توضیح کے ضمن میں ہم نے ان الفاظ کو ذکر کیاتھاکہ ’’ان متعدد و متغایر وجوہ میں سے کسی ایک پربھی قرآن کی تلاوت ہوسکتی ہے اور اس تلاوت کی مثال بعینہٖ وہی ہے جیسا کہ کوئی منزل قرآن کی تلاوت کرے۔‘‘ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول [ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث صفحہ۴۴(رشد، قراءات نمبر، حصہ اول:ص۱۰۸)] سے مترشح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان میں سے جس پربھی تم قراءت کرو گے تو حق وصواب کو ہی پاؤ گے‘‘ یعنی قرآن مجید کو ہی اس مفہوم کے اخذ پرآپ کا ایک قول [حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث بروایت جریر صفحہ ۴۶(رشد، قراءات نمبر، حصہ اول:ص۱۰۸)] بالکل صریح بھی ہے’’ کہ جس نے ان حروف سے کسی ایک پر پڑھا تو گویا اس نے قرآن پرہی تلاوت کی‘‘ یعنی اس نے قرآن ہی تلاوت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ مروی ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ’’جو آدمی کسی ایک حرف پر تلاوت کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ اس کو اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے ترک نہ کرے۔ اسی طرح ایسا شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے حروف میں کسی اور پر قراءت کرتا ہو تو وہ بھی اس کو ہرگز بے رغبتی سے ترک نہ کرے کیونکہ جس کسی نے بھی قرآن کے ایک حصہ(آیت) کا انکار کیا گویا وہ پورے قرآن کے انکار کا مرتکب(۲۸) [حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ (مسنداحمد)،(ابن جریر) پہلے گزر چکی ہے۔(ص:۵۳)] ہوا۔‘‘ چنانچہ یہ تمام نازل شدہ وجوہ قرآن ہی ہیں اور سب ہی شافی و کافی ہیں اور ان وجوہ کے مابین کسی قسم کا امتیاز یاترجیح روا رکھنا قرآن سے دوری ہے کیونکہ ان وجوہ کے مجموعہ پر ہی قرآن قائم ہے یعنی ان سب کو ملا کرہی قرآن کریم متکون ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصاحف کی کتابت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بات کی شدید خواہش کی کہ تمام وجوہ کو ہر ہر کلمہ میں جمع کردیا جائے یعنی ایک ہی مصحف میں تمام وجوہ یکجا ہوجائیں تاکہ بعد میں آنے والے کسی اُمتی کو ان میں سے بعض کو بعض وجوہ پر ترجیح دینے اور امتیاز روا رکھنے کا وہم بھی نہ ہو۔ |