وجوہ کی تیسری صفت یہ ہے کہ ’’یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ‘‘ اس قید کو لگا دینے سے ایسے اہل علم کی تردید مقصودہے جن کازعم یہ ہے کہ وجوہ کی یہ رخصت مستقل وجوہ کی صورت میں نہیں بلکہ صرف اس حدتک ہے کہ لوگوں کو الفاظ قرآنی میں آسانی کی غرض سے تصرف کی اِجازت دی گئی ہے اور وہ اپنی مرضی سے جوچاہیں تلاوت کرسکتے ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کوئی مستقل وجوہ نہیں جن کی پابندی بہرطور لازمی ہو۔ جبکہ اس قول کی تردید میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یہ وجوہ صرف اور صرف اللہ کی نازل کردہ ہی ہیں جن کوجبریل علیہ السلام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایاکرتے اور اور آپ کو خود اس کی حفاظت کرواتے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی حفاظت کے قابل ہوجاتے۔ بعد ازاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفس نفیس صحابہ کو ان کی تعلیم دیتے، سکھاتے اور ہر صحابی کو اس کے حالات وظروف کی روشنی میں ، اس کی استعداد اور طاقت، زبان اور لہجہ کومدنظر رکھتے ہوئے(آپ جس وجہ کومناسب سمجھتے) اس کی تلاوت کااختیار دیتے۔ وجوہ کا چوتھا وصف جو ہم نے بیان کیا ہے، ’’وجوہ من القراءۃ‘‘ ہے۔یعنی ان سب وجوہ کا تعلق قراءت کے ساتھ ہے اور ان میں باہمی اختلاف قراءت کے ضمن میں ہی ہے،کیونکہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بصراحت موجود ہیں کہ ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر پڑھایا، پھر ....‘‘ اسی طرح جبریل علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اُمت کوسات حروف پرقرآن پڑھائیں ....الخ‘‘ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ’’آپ کی امت سات حروف میں سے کسی ایک پرقرآن کی تلاوت کرے‘‘ مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرف کے ذکر کرنے کے بعد فرمایاکہ ’’ان سے جوتمہیں آسان معلوم ہو اس پر پڑھو‘‘ اور ’’جس حرف پربھی یہ تلاوت کریں تو خیر کو اور حق کو ہی پہنچیں گے۔‘‘ مذکورہ بالا تمام اَحادیث میں سبعہ احرف کو پڑھنے اور تلاوت کرنے کا حکم ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا تعلق لازماً پڑھنے سے ہی ہے۔ چنانچہ وجوہ کو قراءت سے مقیدکرنے والی متعدد احادیث بھی کتب میں موجود ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں : ’’میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کوسنا کہ وہ سورہ فرقان کی ایسے حروف(وجوہ) پرتلاوت کررہے تھے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘اسی طرح اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ ’’میں مسجد میں تھاکہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نماز شروع کردی۔ سو اس نے ایسے طریقے پرقراءت کی جس کا میں نے اس پر انکار کیا۔پھر دوسرا شخص داخل ہوااور اس نے پہلے سے بھی مختلف قراءت کی....الخ‘‘ چنانچہ یہ تمام الفاظ اس بارے میں صریح ہیں کہ احرف کا لازمی تعلق قراءت سے ہی ہے، جس طرح کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے احرف کو ’’قراءات ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ہمیں ایسی کوئی روایت مل نہیں سکی جو اس امر کو ثابت کرتی ہو کہ احرف کاتعلق وجوہ قراءت کے ماسواء سے ہے۔ اسی طرح ایسی بھی کوئی روایت نہیں جو وجوہ کو قراءت کے ساتھ مقید کرنے پر مزید کسی قید کا تقاضا کرے۔اس قید پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ احرف |