Maktaba Wahhabi

234 - 933
ہمارے اس قول پر مزید ایسے دلائل کون سے ہیں جن سے مزید اطمینان حاصل ہوسکے؟ اس کے لیے اب ہم اپنے قول پر جزء اًجزء اً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور قرآن کی ثابت شدہ قراءات سے استدلال کریں گے۔ ۱۔ ہماراقول کہ سبعہ احرف ’’قراءت کی ایسی وجوہ ہیں ، جو کہ بظاہر اور متعدد ہیں اور سب کی سب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں ۔‘‘ اس قول میں اولاً ’حرف‘ کے بے شمار معانی میں سے ایک معنی ’وجہ‘ کو ترجیح دی گئی ہے اور ہم نے احرف کی تفسیر وجہ یا وجوہ سے کی ہے ،کیونکہ جب ہم حدیث کے الفاظ کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ احرف کے معنی میں صرف اور صرف یہی تاویل درست ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد ہم نے ’وجوہ‘ کی چار صفات ذکر کی ہیں جن میں سب سے پہلی ’متعددہ‘ ہے کہ یہ وجوہ متعدد ہیں ۔ اس صفت کے ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ پہلی کتب اور قرآن کاابتداً نزول جس طرح ایک وجہ پر ہوا تھا اس طرح اب ان وجوہ کے نازل ہونے کے بعد قرآن ایک وجہ پر نہیں رہا بلکہ متعدد وجوہ پر ہوگیا ہے۔ وجوہ کی دوسری صفت ہے’متغایرہ‘ ....ا س لفظ کے ساتھ وجوہ میں پائے جانے والے ان اختلافات کی طرف اِشارہ مقصود ہے جو ان دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہوسکتے ہیں : (ا) : اتفاق معنی کے ساتھ صرف الفاظ میں تبدیلی۔ (ب):یا الفاظ اور معانی دونوں میں تبدیلی۔ وجوہ کی اس صفت کے ساتھ دراصل ابن جریر رحمہ اللہ کے اس قول کی تردید بھی مقصود ہے کہ جس میں انہوں نے اَنواع اختلاف کو صرف اور صرف ’ترادُف‘میں محصور کردیا ہے، وجہ اس صفت کے ساتھ مقیدکرنے کی یہ ہے کہ مختلف اَحادیث میں یہ مضمون موجود ہے کہ ’’جب کبار صحابہ اور علم و تفقہ اور علوم قرآنی میں ممتاز اصحاب ِرسول(مثلاً عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ) نے کچھ لوگوں کو مختلف وجوہ پر قراءت کرتے ہوئے سنا اور بعد میں ان لوگوں کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق بھی کردی تو پہلے پہل ان صحابہ کو اس امر کے قبول کرلینے میں تذبذب کاسامنا ہوا اور وہ فوری طور پر اس کے قبول کرلینے پراپنے آپ کو آمادہ نہ کرسکے بلکہ بعض کے دل میں شک اور انکار کی سی کیفیت پیداہوگئی جس کو بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت سے رفع کردیا۔‘‘ چنانچہ ان اَحادیث کا یہ مضمون اس بات پردلالت کرتا ہے کہ ان وجوہ متغایرہ میں یہ فرق خفیف اورمعمولی نوعیت کا نہیں تھابلکہ ان وجوہ کے ذریعے ایسا واضح فرق رونما ہوا تھا جن سے ایسے صحابہ جو آپ پر ایمان و ایقان کی دولت سے مالا مال تھے کے ذہنوں نے بھی فوری طور پر اس فرق کو قبول کرنے میں پس و پیش کی۔ میرا یہ خیال نہیں کہ اگر وجوہ کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلاف کی نوعیت فقط بعض الفاظ کی جگہ دوسرے مترادف الفاظ اداکردینے تک محدود تھی(مثلاً ھَلُمَّ کی جگہ تعال اور إلینا کی جگہ أقبل)تو صحابہ کو اس کے قبول میں اس قدر مشکل پیش نہ آتی۔ لہٰذا صحابہ کا ان وجوہ کی سماعت کے بعد اس حد تک پریشان ہوجانا اس بات پر دال ہے کہ یہ تغایر صرف اور صرف ترادف ہی نہ تھا بلکہ اس میں اختلاف کی اور بھی صورتیں موجود تھیں جیساکہ بعد میں واضح کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
Flag Counter