Maktaba Wahhabi

233 - 933
ہے۔ سو آپ نے اپنی رائے فتح الباری [الفتح:۱/۲۳] میں ان الفاظ سے شروع کی ہے کہ: ’’باب ہے اس بات کا کہ قرآن سات حروف پرنازل کیاگیا ہے، یعنی قرآن کا نزول سات وجوہ پر ہوا ہے جن میں سے ہر ایک پر تلاوت کرنا جائز ہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ قرآن کاہر کلمہ سات وجوہ پر پڑھناجائز ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کسی کلمہ میں بھی قراءات کی زیادہ سے زیادہ صورتیں سات ہوسکتی ہیں ۔‘‘ ٭ یہ بات کہ لازمی نہیں ہر کلمہ یا آیت قرآن سات وجوہ پر ہی نازل ہوئی ہے۔اس کو ابوعبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے ’فضائل القرآن‘ میں ،ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور جزری رحمہ اللہ نے’نشر‘ میں ،اسی طرح ابوالفضل رازی، بیہقی اور ابو حاتم السجستانی رحمہم اللہ نے اختیارکیاہے۔میرے علم کی حد تک اس بات کا محققین میں سے کوئی بھی مخالف نہیں ماسوائے اس کے جو ابن جریر رحمہ اللہ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کہا: ’’قرآن کاہرہر کلمہ سات وجوہ کے ساتھ پڑھاجاتاتھا اس طرح کہ سات وجوہ میں ایسے مترادف الفاظ استعمال ہوتے تھے جو مختلف زبانوں سے متعلقہ لیکن مفہوم میں یکساں ہوتے۔‘‘ سو ابن جریر رحمہ اللہ کا یہ قول شاذ ہے اورکسی دلیل کے نہ ہونے کی وجہ سے مردود بھی۔ ٭ جہاں تک احرف یاوجوہ کی سات کے عدد سے تحدید کا تعلق ہے تو اس کی بھی قاضی عیاض رحمہ اللہ کے ماسوا کسی محقق اہل علم نے تردیدنہیں کی، قاضی عیاض رحمہ اللہ کا شرح مسلم میں یہ قول موجود ہے کہ: ’’ سبعہ احرف سے دراصل صحابہ کو قراءت بالمعنی کی رخصت دی گئی تھی اور ’سبعہ‘کے لفظ سے کوئی تجدید نہیں بلکہ زیادتی مراد ہے لہٰذا قراءت بالمعنی میں وجوہ کی کوئی حد بندی نہیں ۔‘‘ سو آپ کاقول بھی دو وجوہات کی بناء پر قابل رد ہے: پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس میں قراءت بالمعنی کی اجازت اور اس کو مشروع بتایا گیا ہے۔ دوسری یہ کہ صحابہ پڑھائی ہوئی وجوہ کے ماسوا دوسری ہم معنی وجوہ پر بھی قراءت کرسکتے تھے جبکہ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جوقطعاً علم و عقل کی کسوٹی پرپوری نہیں اترتیں ۔(اور ان دونوں نظریات کی مفصل تردید بھی گزر چکی ہے)۔ ان معروضات سے یہ ثابت ہواکہ ہم نے سبعہ احرف کی تعریف اپنے پاس سے نہیں کرلی یا یہ کوئی ایسی مراد نہیں جو کہ آج سے پہلے کسی نے اختیار نہ کی ہو اور سلف میں کوئی اس کاقائل نہ ہوبلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلف محققین پہلے بھی اس قول کو اختیار کرتے رہے، لیکن بایں طور کہ ایک مقام پر یہ قول اس طرح کہیں کسی سے منقول نہیں بلکہ متفرق مقامات پر بکھری ہوئی صورت میں موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس قول اور اس کی جزئیات کو کسی بھی مصنف نے جمع نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اس تفسیر کا کوئی جز اختیارکیا ہے اور کوئی پہلو پکڑا ہے۔الغرض کسی امام یا محقق نے اس قول کو ایسی مکمل صورت میں نہیں اختیار کیا جس سے مسئلہ حل ہوجاتا اور اس قضیہ کافیصلہ ہوجاتا بلکہ ہر ایک نے اس میں غوروفکر کے بعد اس کے بعض پہلوؤں کو ہی نقل کیا ہے۔ جہاں تک قرطبی رحمہ اللہ کا سبعہ احرف کے بارے میں آراء جمع [تفسیر القرطبی:۱/۴۲]کرنے اور سیوطی کا مختلف [الاتقان:۱/۱۳۱۔۱۴۲] اقوال ذکر کردینے کا تعلق ہے تو قرطبی رحمہ اللہ اور سیوطی رحمہ اللہ کے اس کام سے مسئلہ کی تحقیق میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، نہ ہی سبعہ احرف کی تعیین میں اس سے کوئی اہم مدد ملی، کیونکہ انہوں نے صرف ان اقوال و آراء کے ذکر پر اکتفا کیا اور مختلف اقوال پرتنقید و تبصرہ کے بعد قول راجح کو دلائل سے ثابت نہیں کیا۔
Flag Counter