قوی اُمید ہے کہ اب آپ ہمارامدعا اور مقصد بخوبی سمجھ چکے ہوں گے جو ہم سبعہ احرف کے ضمن میں رکھتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس مفہوم کو محدود الفاظ میں اس طرح سمیٹ دیں تاکہ یہ تمام بات بآسانی سمجھ میں آسکے۔سو سبعہ احرف کامفہوم یہ ہے۔ اَحرف سبعہ: ’’قراءات کی متعدد وجوہ ہیں جو باہم مختلف ہیں ۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور قاری کے لیے جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک وجہ پر قرآن کی تلاوت کرے اور اس کی یہ تلاوت قرآن کی تلاوت ہی سمجھی جائے گی۔سبعہ کے عدد سے مراد یہ ہے کہ وجوہ قراء ت،(جو کہ منزل من اللہ ہیں )قرآن کے کسی ایک کلمہ میں اختلاف وتغیر کی انواع میں سے کسی ایک نوع کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ سات تک ہوسکتی ہیں ۔اسی طرح یہ بات لازمی نہیں کہ قرآن میں ہر جگہ پرتعداد سات ہی ہو۔ بلکہ لازمی یہ ہے کہ بعض جگہ کم تو ہوسکتی ہے،لیکن کسی بھی جگہ زیادہ سے زیادہ ایک کلمہ میں تبدیلی کی سات اَنواع ہی ہوسکتی ہیں ۔‘‘ اس موقع پر آپ یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ سبعہ اَحرف کی اس تشریح و توضیح سے کیاثابت ہوتا ہے اور اس مفہوم کے اَخذ کرلینے کی دلیل کیاہے اسی طرح علماء سابقین میں سے کس نے اس قول کو اختیارکیاہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ اس قول کو کس امام نے اختیارکیاہے؟تو ہماری تحقیق کے مطابق ان تمام اَقوال سے جوکہ سبعہ اَحرف کی تحقیق کے ضمن میں اَئمہ سے منقول ہیں ایساقول توکوئی بھی نہیں جو ہمارے قول کے حرف بحرف موافق ہو اور اس کی جزئیات و تفصیلات بھی ہمارے قول سے مشابہ ہوں ۔ مگر اکثر علماء کے کلام پربحث و استقراء کے نتیجے میں ہمیں ایسے کلمات ملتے ہیں جو ایک ہی مقام پر منظم طور پر سے تو موجود نہیں (بلکہ متعدد مقامات پر بکھرے ہوئے ہیں ) لیکن وہ کلمات ہمارے اس قول کو ثابت کرتے ہیں جس کو اس بحث کی ابتداء میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق ہم نے دلائل و براہین شرعیہ اور نصوص الہیہ پر پیش کرکے اپنایا ہے۔ ٭ بطور مثال امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس قول کے کچھ اجزاء کو اختیار کیا ہے(اور سیوطی وہ شخص ہیں جنہوں نے اس حدیث کی تحقیق میں بڑی وضاحت سے کلام کی ہے)چنانچہ انہوں نے اپنی تحقیق کے دوران اُن دو جہات کو بھی اقوال میں شمارکیا ہے جن کو ہم نے ترجیح دی اور سیوطی نے اس قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس قول پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی۔سیوطی کااپنی کتاب الاتقان میں یہ اشارہ مندرجہ ذیل دو اقوال کے تحت موجود ہے۔[الاتقان:۱/۱۳۵] لہٰذا آپ کہتے ہیں کہ: ’’سبعہ احرف کے بارے میں تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سبع قراءات ہیں ۔قرآن مجید میں وہ کلمات جن میں ساتوں وجوہ پڑھنا ممکن ہے، کی تعداد بہت کم ہے، مثال کے طور پر ﴿عَبَدَ الطَّاغُوْت﴾ اور ﴿فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا أفٍّ﴾ ایسے کلمات ہیں جن میں ساتوں وجوہ ممکن ہیں ۔‘‘ چوتھا قول یہ ہے کہ: ہر کلمہ میں ایک ، دو یا تین اور زیادہ سے زیادہ سات تک وجوہ کی تلاوت ممکن ہے لیکن اس پر تنقید کی گئی ہے کہ بعض کلمات ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قراءات بھی پڑھی گئی ہیں لہٰذا لازمی ہے کہ اس کی کوئی توجیہہ کرلی جائے۔ ٭ ایسے علماء جن کے کلام سے ہمارے قول کے قریب اشارات ملتے ہیں ان میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بھی ہیں اور آپ کی بحث سبعہ احرف کی تحقیق و تفسیر کے ضمن میں لکھی جانے والی چند ایک مثالی تحریروں میں سے ایک |