Maktaba Wahhabi

231 - 933
بارے میں پوچھا گیا یا انہوں نے خود سوال کیااور اس سوال کاجواب پالینے پر دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی۔ ٭ اگر یہ صورت نہیں تو پھر دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سبعہ اَحرف کی تفسیر اس وجہ سے نہیں کی گئی کہ ان کامعنی غیر واضح تھا یا ان کی تفسیر از حد صعب تھی اور ان کی شرح میں مشکلات درپیش تھیں یا پھر ابھی ان کی حقیقت بیان کرنے کا وقت نہیں آیا تھا ،کیونکہ ان کی بے شمار اقسام اور فروع کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوسمجھنے میں مشقت کا سامنا ہوتا جبکہ ان کا فہم، وسیع مطالعہ اور غوروفکر سے حاصل ہوسکتا تھا اور ان کی حقیقت کے اِدراک کے لیے بحث و نظر کی وسیع منازل طے کرنا لازمی تھیں ۔ سبعہ اَحرف کی حقیقت ہم تک منقول نہ ہونے کی یہی دو وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سے دوسری صورت تو قطعاً باطل ہے جس طرح کہ ہم پہلے معارضات سے ثابت کرچکے ہیں کہ صحابہ اس کا خاطر خواہ علم رکھتے تھے اور یہ بات بھی ضروریات دین سے ہے کہ امت کو اس کا علم ہونا چاہئے تاکہ اس رخصت کی حکمت خوب اچھی طرح ثابت ہوجائے اور ان احرف سبعہ پرعمل درآمد ہوسکے۔اسی طرح اس بات کو بھی کوئی سلیم العقل درست نہیں قرار دے سکتا کہ ہم یہ دعویٰ کریں کہ امت کے اوّلین طبقہ یعنی صحابہ و تابعین سے اس کی حقیقت چھپی ہوئی تھی باوجود اس کے کہ وہ اُمت کے سب سے زیادہ صاحب ِ علم، گہرے فہم کے حامل اور دین کے ماہر تھے۔ پھر بعد میں آنے والے سالوں میں اس کی حقیقت منکشف ہوتی گئی۔ چنانچہ ان دونوں صورتوں میں پہلی وجہ ہی قابل قبول ہے کیونکہ وہی صورت دین کے قریب تر ہے کہ صحابہ کرام نے اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال دراصل اس لیے نہیں کیا کہ احرف سبعہ کی تفسیر اور وضاحت ان کو معلوم تھی اور وہ اس کے مفہوم کوسمجھنے کے محتاج نہ تھے۔ کیونکہ ان کے ذہن میں اگر کوئی اشکال پیدا ہوتا تو وہ سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کی کوشش کرتے جیساکہ قراءت کے ضمن میں ہی جب انہوں نے کسی اور قاری کی مختلف انداز پرقراءت سنی تو قرآن میں اختلاف اور اضطراب کے واقع ہوجانے کے ڈر سے انہوں نے فوری طور پر رجوع کیااور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے سے قبل ان کے ذہن میں یہ سوال پیداہواکہ مختلف قراء کا یہ اختلاف قرآن میں تغایر اور اختلاف کاموجب ہے اور اس سے قرآن میں خلل اور تناقض کا اندیشہ ہے حتیٰ کہ یہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بعض نے تو پڑھنے والے کے منہ سے یہ الفاظ سننے پر کہ ’ھذا کما أقرأنی رسول اللّٰہ ‘ آپ کی ذات کے بارے میں بھی شک کیا اور شیطان ان پر غالب آنے لگا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے پر جب انہوں نے آپ کو بنفسہٖ مختلف قراءات پر تلاوت کرتے ہوئے پایا تو ان کے ذہنوں سے شیطانی وساوس اور شکوک رفع ہوگئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل دو اُمور کے ذریعے ان کے ذہن میں کلبلاتے سوالوں کودبا دیا۔ امر اوّل: انہیں نئی رخصت اور جدید حروف سے مطلع کیا اور فرمایا کہ یہ تمام وجوہ قراءات منزل من اللہ اور کافی و شافی ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن ہی ہیں ۔ امر ثانی: ان وجوہ کے ذریعے پیداہونے والے اختلاف کی نوعیت واضح کردی اور ان کے ذہنوں کو اس نوع تغیرسے مانوس کرنے کے لیے مثال دے کرواضح کیاکہ یہ تغیر تناقض و تضاد کی قبیل سے نہیں بلکہ تنوع اور زیادتی معنی کی قسم سے ہے۔
Flag Counter