Maktaba Wahhabi

230 - 933
۲۔ جس میں معنی اور لفظ دونوں مختلف ہوجائیں ،لیکن یہ اختلاف تضاد کی نوعیت کا نہ ہو، تنوع کی قبیل سے ہو۔ جس طرح قَالَ اور قُلْ،بَاعِدْ اور بَاعَدَ ، مَالِکِ اور مَلِکِ ،اَوْصَی اور وَصّٰی ۳۔ لہجات میں اختلاف یعنی کسی لفظ کی اَدا میں تبدیلی اصل لفظ اورمعنی کی بقا کے ساتھ۔ مثال کے طور پر کسی کو جھکا کر یاسیدھا پڑھنا، مد اور قصر، ادغام اور عدم ادغام اسی طرح نرمی سے یا جھٹکادے کر پڑھنا۔ یہاں اختلاف کی ایک قسم اوربھی ہوسکتی ہے کہ بعض اَوقات کسی کلام میں تبدیلی لفظ اور معنی کے اختلاف کے ساتھ ساتھ تناقض اور تضاد کی قبیل سے ہوتی ہے۔ سو یہ صورت قرآن کریم میں نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ ان کی موجودگی قرآن میں خلل اور اضطراب و شک کو لازم کرتی ہے حالانکہ قرآن اس سے یکسر منزہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قرآن میں باطل نہ آگے سے داخل ہوسکتا ہے اورنہ ہی پیچھے سے اور یہ اللہ رب العزت حکمت والے کی نازل کردہ(کتاب)[فصلت:۴۲]ہے۔‘‘ایک اور مقام پریہ الفاظ ہیں :’’اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف [النساء:۸۲] سے ہوتا تو لوگ اس میں جابجا اختلافات اور تناقض پاتے۔‘‘[انظر النشر:۱/۴۹] ان دونوں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں خلل اور تناقض وتضاد کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ۔ حروفِ سبعہ سے مراد کیا ہے؟ یہاں تک ذکر ہونے والی پوری بحث اور معارضات سے قاری کے ذہن میں از خود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے اَقوال ہی درست نہیں تو پھر اَحرف سبعہ سے مراد کیا ہے؟ اور اس کی ایسی کیا تفسیر کی جائے کہ نفس کو قرار اور دل کو اطمینان نصیب ہوجائے؟اس سے پہلے کہ ہم آپ کے ذہن میں پیدا ہونے والے اس سوال کا جواب دیں ، ہم اس بات کو دھرانا چاہتے ہیں جو حروف سبعہ سے متعلقہ بے شمار احادیث کے ذکر کے وقت ہم نے کہی تھی اورجیساکہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں کہ ہم نے اس کے جملہ طرق اور سند ومتن میں الفاظ و صحت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہمیں ان تمام سے کوئی بھی ایسی صریح عبارت دستیاب نہیں ہوسکی جو سبعہ احرف کے مراد اور مفہوم کو متعین کردے۔چنانچہ سبعہ احرف کا مفہوم اور مراد کیا ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ضرورت اور حاجت کے وقت اس کی وضاحت کومؤخر نہیں فرمایا کرتا۔ سو اُمت نہ صرف اس کی حقیقت معلوم کرنے کی محتاج ہے تاکہ اس پر قراءت کرسکے بلکہ اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کی بھی ضرورت مند ہے۔ لیکن کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جملہ اَحادیث اور منقول آثار کسی ایسی واضح تر عبارت سے خالی ہوں جو ہمارے لیے مفہوم کو واضح اور مشکل کوآسان کردے اور کیا وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سبعہ احرف کی بابت کچھ سوال کرنا گوارا نہ کیااور نہ ہی ہماری طرف سے اس کی وضاحت اور تفسیر نقل کی سو ہمارے خیال میں اس کی وجہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہوسکتی: ٭ یا تو یہ ایسے کلمات ہیں جن کی مرادمعین ہے، جو وضاحت و تفسیر کے محتاج نہیں بلکہ ان کی تفسیر کے بارے میں سوال کرنا عین دوپہر کے وقت سورج کے متعلق سوال کرنے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہوسکتی ہے اس بات کی کہ کسی نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی بھی سوال کرنے کی ضروت محسوس نہیں کی اور ہرایک اس کے مفہوم سے بخوبی واقف تھا۔ اسی سبب کی بناء پرصحابہ رضی اللہ عنہم سے اس مضمون کی کوئی حدیث منقول نہیں کہ ان سے اس کے
Flag Counter