Maktaba Wahhabi

229 - 933
طرف سے کوئی اِضافہ نہیں کیا۔ لیکن اس کے برعکس امام رازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ انواع تغیر کی طرف جب ہم نظر کرتے ہیں تو وہ جزری رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی آراء سے قدرے مختلف ہیں ، کیونکہ رازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ اَنواع کے ضمن میں ان دونوں کی بیشتر اَنواع بھی آجاتی ہیں اور اس کے علاوہ مزیدبھی۔مثال کے طور پر رازی رحمہ اللہ نے اپنے قول میں اَنواع تغیر سے تیسری اور چھٹی نوع اس کو قرار دیا ہے کہ: ’’(۳) اعراب کی وجوہ میں اختلاف ....اور(۶) حروف کاقلب یا بعض حروف کا بعض دوسرے حروف سے ابدال، اسی طرح کلمات کی کلمات سے تبدیلی۔‘‘ اس میں انہوں نے ان تمام قسم کی تبدیلیوں کو علی وجہ العموم دو قسموں کے تحت ذکر کردیا ہے، لیکن یہی دو اَقسام باقی دو ائمہ کے اقوال میں پانچ اقسام میں منقسم ہیں ،اگرچہ انہوں نے پانچ اقسام بناتے ہوئے ان اختلافات کی تقسیم میں صورۃخطی،اختلاف معنی اورکتابت میں اختلاف یا عدم اختلاف کو مدنظر رکھا ہے، لیکن بہرحال مراد دونوں کی قریباً ایک ہی ہے۔اس کی ایک اورمثال یوں بھی ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے پہلے اور دوسری نوع کے تحت اوزان اسماء میں پیش آنے والے اختلافات اور تصریف افعال میں ہونے والے اختلافات کو ذکر کیا ہے جبکہ معمولی سے غوروفکر کے بعد باقی دو حضرات کی ذکر کردہ پہلی پانچ انواع کے ضمن میں یہ دونوں انواع بھی آسکتی ہیں ۔فرق صرف اسی قدر ہے کہ جن زاویوں اور جہات سے امام رازی رحمہ اللہ نے اختلافات کی حد بندی کی ہے جزری رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی تقسیم ان زاویوں سے ہٹ کر کچھ اور چیزوں کومدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود ایک نوع ایسی بھی ہے جوصرف امام رازی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے اور باقی دو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوپائے اور وہ نوع ہے ’اختلاف لہجات‘ کی اور جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں کہ یہی نوع اس بحث میں اہم تر ہے۔ ان تینوں اَقوال کاہم نتیجہ برآمد کرناچاہیں تو مختصراً تمام انواع کو کم از کم دس انواع تغیر میں تقسیم کرسکتے ہیں کہ وہ تمام صورتیں جو کلمات میں اختلاف کے ضمن میں آتی ہیں اور ان اَقوال سے ثابت ہوتی ہیں ، کل دس بن سکتی ہیں ۔ لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئندہ کوئی اور صاحب علم مزید بحث و استقراء کے بعد اس تعداد میں اضافہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس معارضہ سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ ان تینوں بزرگ اصحاب علم کی انواع تغایر و اختلاف کی تعیین اور ان کو کھینچ تان کر سات حروف کے ضمن میں لانا بے جا تکلف اور مشقت کے سوا کچھ نہیں ۔حتیٰ کہ جب ان کی جدوجہد اور کوشش کے بعد حاصل شدہ انواع کے نتیجے پر پہنچتے ہیں جس کو انہوں نے حدیث کی مراد تصور کیاہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سبعہ احرف فی ذاتہا کچھ اور ہیں اوراس میں انواع اختلاف ایک بالکل مختلف چیز ! اور اس مقام پر پہنچ کر یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ یہ تمام وہ صورتیں ہیں جو کلمات کے مابین تغیر اور اختلاف کے ضمن میں آتی ہیں نہ کہ حروفِ سبعہ کے مابین اختلاف ۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تمام بحث کا خلاصہ ان تین نکات میں نکال لیا جائے کہ اختلاف کی تین ہی صورتیں ہیں : ۱۔ جس میں لفظ مختلف ہوجائیں اور معنی ایک رہے، اس صورت کو لغت میں ’الترادف‘سے موسوم کیاجاتاہے، مثلاً ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال‘ اور ’اقبل
Flag Counter