Maktaba Wahhabi

228 - 933
استعمال میں لاسکتے ہیں جو پڑھنے لکھنے سے بہرہ ور نہیں اور کس طرح وہ ان تک پہنچ سکتے ہیں ؟اگر سبعہ حروف سے مراد یہی ہے جو یہ کہتے ہیں تو بلاشبہ یہ تو ان پرمزیدمشقت ہے اور ان سے کسی ایک کو اختیارکرکے پڑھنا تو ان کے واسطے از حد مشکل ہے اور یہ کیسا اختیار ہے، کیسی رخصت ہے۔؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حروف کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمام حروف شافی اورکافی ہیں اور ان میں سے جس پر بھی لوگ پڑھیں گے سو وہ درست ہی کریں گے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’آپ نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر اس رخصت کو مانگا ہے تاکہ اُمت کے مختلف لوگوں کو اس رخصت اور آسانی سے فائدہ پہنچایا جاسکے۔جن میں بوڑھے بھی ہیں ، طویل العمر بھی، کم عمر اور ادھیڑ عمر بھی اور ایسے لوگ بھی جنہیں کبھی لکھنے پڑھنے کا اتفاق ہی نہیں ہوا، ایک روایت میں ’خادم‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں کہ اس اُمت میں خدمت گزاربھی ہیں ۔ جزری، رازی اور ابن قتیبہ رحمہم اللہ سے ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ہمیں بتائیں کہ ایسے لوگ(جن کا ابھی ذکر ہوا ہے) کس طرح ان کی ذکر کردہ انواع اختلاف کو یا کسی ایک کو استعمال کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اورکس طرح وہ ان پر قرآن کو پڑھ سکیں گے؟ اس میں ان کے لیے رخصت کا کون سا پہلو ہے اور ان کے لیے اس میں کس طرح سے آسانی اور تیسیر ہے؟ ۳۔ اس قول پر وارد ہونے والے اعتراضات میں سے تیسرا یہ ہے کہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور جزری رحمہ اللہ نے سات انواع تغیر کو ذکر کرتے ہوئے اختلاف لہجات کو تو ذکر بھی نہیں کیا باوجود اس کے وجوہ اختلاف کے ضمن میں یہ وجہ بڑی اہم اور کثرت سے استعمال ہونے والی ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ اس تجزیہ سے ہمارامقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان انواع تغیر کاانکار کرنے پر مصر ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان اصحاب علم میں سے ہر ایک کی عبارت دوسرے سے حد درجہ مختلف اور متغایر ہے۔حالانکہ یہ سب علماء بڑی بحث و تمحیص، قرآن کے متعدد بار مطالعہ اور حد درجہ محنت ومشقت کے بعد اس مقام پر پہنچے کہ ان انواع اختلاف کو اخذ کرسکیں اور بعدمیں ان کی تعیین کرسکیں ۔ باوجود اس کے اس مسئلہ میں تینوں کی رائے مختلف ہے جس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ہر ایک نے دوران مطالعہ کسی خاص جہت کوملحوظ رکھا اور دوسرے کے سامنے کوئی دوسرا پہلو موجود رہا ان تینوں میں سے عبارت میں باریک بینی اور زیادہ مشق و مہارت امام رازی کاخاصہ ہے۔ ہمارا اختلاف ان سے دراصل دو نوعیت کا ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے انواع تغایر کو بتکلف سات تک محدود کیاہے تاکہ حدیث میں مذکور تعداد کی موافقت ہوجائے۔دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے جن انواع کو سبعہ اَحرف کی تفسیر بنایاہے اوربڑی مشقت سے حدیث کے مفہوم کی وضاحت کی کوشش کی ہے ان سے ہماری رائے مختلف ہے۔ ان آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ انواع جن کو تینوں اہل علم نے ذکر کیاہے ان میں دو تو ایسی ہیں جن پر ان کا اتفاق رائے ہے۔ اور ان کی عبارتیں ان کی وضاحت میں یکساں ہیں : ۱۔ تقدیم و تاخیر ۲۔ زیادتی و نقص اس کے بعد ابن قتیبہ اور جزری رحمہم اللہ کے اقوال کے مابین پانچ انواع ایسی پائی جاتی ہیں جن پر ان میں کافی حد تک اتفاق ہے،بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جزری رحمہ اللہ نے انہیں ابن قتیبہ رحمہ اللہ سے ہی نقل کردیا ہے اور ان میں اپنی
Flag Counter