Maktaba Wahhabi

227 - 933
ختم ہوچکا ہے اور اب ایسا ممکن نہیں رہا کہ کوئی ایسا شخص اسلام میں داخل ہو جو پڑھنے اور لکھنے سے قطعاً بے بہرہ، عربی زبان کی مشکلات سے دوچار اور تلفظ میں صعوبت کا سامنا کرنے والا ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی ایسے مسلمانوں کوتلاوت قرآن میں مشقت کا سامنا ہے جس کی زبانیں عربی سے مختلف اور عجمی ہیں بلکہ انہیں اس دور سے زیادہ ضرورت اور اس رخصت کی زیادہ حاجت ہے۔ ان حقائق کو سمجھنے اورجاننے کے باوجود نامعلوم کون سی ایسی اہم وجہ ہے جس نے ابن جریر رحمہ اللہ کو اس رائے کے اختیار کرنے پر مجبور کیا حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جملہ قراءات مصحف عثمان میں نہ صرف پائی جاتی ہیں بلکہ مصحف عثمانی سے ہی ثابت بھی ہیں ۔[دیکھئے صفحہ۱۷۹، شرط ِ اوّل] سوال پیداہوتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی مصحف عثمانی میں سبعہ حروف بیک وقت موجود ہوں ؟ یا صورت ایسی ہے کہ ایک حرف کے بجائے مختلف مصاحف میں مختلف حروف ہیں ؟ اس مسئلہ میں جس رائے کو محققین نے اختیارکیا ہے، یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری مرتبہ جو حروف تلاوت کئے گئے ان میں سے کسی ایک کو بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہمل کیا ہے اور نہ کسی کااِبطال کیاہے۔اسی طرح ان کے سلف ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے بھی اس طرح کاکوئی فعل سرزد نہیں ہوا بلکہ مصاحف عثمان رضی اللہ عنہ کے ضمن میں ہی جملہ حروف(جو آپ پر آخری مرتبہ پیش ہوئے)محفوظ اور باقی ہیں اور تاقیامت کے لیے ان حروف میں سے کسی پر بھی تلاوت کی رخصت موجود ہے۔ قول سادس : ابن قتیبہ، رازی اور جزری رحمہم اللہ کا یہ کہنا ہے کہ احرف سبعہ سے درحقیقت اختلاف اور تبدل و تغیرکی انواع مراد ہیں جو کہ سات ہیں ....الخ اس قول کی تردید مندرجہ ذیل اُمور کے ساتھ ہوتی ہے۔ ۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انواع تغیر کی نشاندہی اور ان کی تعداد و تعیین پر اتفاق ہوناضروری امر ہے جبکہ یہ امر ان قائلین کے مابین مختلف ہے۔ ۲۔ ثانیاً یہ ہے کہ حروف میں تعدد کی اہم تر حکمت ان قبائل اور گروہوں کے لیے رخصت مہیا کرنا تھی جو پڑھنے لکھنے سے بہرہ ور نہیں اور ان کے لیے ان کی زبان پر جاری طرز اَداکے ماسوا دوسرے طرز پر تلاوت مشکل تھی پھر چند مخصوص قبائل کے سوابالعموم اہل عرب پڑھنے اور لکھنے سے ناآشنا تھے جبکہ ان انواع تغیر(جنہیں یہ اصحاب علم بیان کرتے ہیں )کا بڑا اوراہم تعلق طرزِ کتابت اور صورت خطی سے ہے نہ کہ طرز اَداسے۔ مزید یہ کہ ان تمام اَنواع کااِدراک اور استنباط صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بڑی بحث، گہرائی اوروسعت ِمطالعہ سے ان کاجائزہ لے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ مختلف رسوم الخط سے بھی کافی واقفیت رکھتا ہو اور یہ معاملہ تو نہ صرف علماء بلکہ خاص علماء سے ہی تعلق رکھتا ہے۔سوچا جائے تو پھر ان حروف کا ان مسلمانوں کے لیے کیا فائدہ ہے جن کی آسانی اور سہولت کی خاطر انہیں نازل کیاگیا اور جن کی مشقت دور کرنے کے لیے متعدد صورتوں کی اللہ تعالیٰ نے رخصت دی؟ اگر ہم اس قول کومان لیں تو پھر ایسے اَن پڑھ مسلمان کس طور ان دقیق اور علمی وجوہات کو
Flag Counter