اپنی اصل صورت پر ہی قائم رہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہ ہونے پائے جبکہ یہ بات اس حکمت کے عین منافی ہے جس کے لیے احرف سبعہ کو نازل کیاگیااور وہ حکمت یہی تھی کہ مختلف زبانیں بولنے والی امت سے مشقت دور کی جائے۔ زبانوں کا باہمی اختلاف بھی فی الحقیقت لہجات کاہی ہے جو کہ ثابت شدہ قراءات متواترہ سے ہی ختم ہوسکتا ہے۔ ۲۔ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کی دوسری شق یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مصحف کے علاوہ جوکہ ایک حرف پرتھا باقی چھ حروف کو ختم کردیااور امت پران چھ کی تلاوت،ممنوع و منسوخ کردی۔ ابن جریر رحمہ اللہ کایہ قول عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ غایت درجہ ضعیف بھی ہے،کیونکہ ان کے قول میں اس بات کادعویٰ کیاگیا ہے کہ اجماع صحابہ کے ساتھ قرآن کے بعض حصے کومنسوخ کردیاگیاتھا جبکہ ان حروف میں سے ہر ایک حرف منزل ’قرآن‘ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یا صحابہ میں سے کسی ایک کو بلکہ تمام صحابہ کو بھی یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ کسی صریح نص کے بغیر قرآن کابیشتر حصہ لغو قرار دے دیں ۔ اگر ہم ابن جریر رحمہ اللہ کاساتھ دیتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی یہی فرض کرلیں کہ دراصل بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو ان حروف پرتلاوت کرنے ، کسی ایک کو اختیار کرنے اورباقی کو چھوڑ دینے کااختیار دیا گیاتھااورایسانہیں تھا کہ امت پر تمام حروف کے ساتھ قراءت لازمی تھی کیونکہ اللہ کی طرف سے یہ ایک رخصت تھی جو اللہ تعالیٰ نے اُمت کے لیے نازل کی۔ لہٰذا اگر انہوں نے ایک رخصت کو امت کے حالات کے پیش نظر حذف کردیاتو اس پر کیامضائقہ ہے....؟ تو اس پر بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اختیار اور رخصت ان حروف میں کسی پر قراءت کی صرف اس حد تک تھی کہ جو قاری کو آسان اور سہل معلوم ہو اس پر تلاوت کرسکتا ہے نہ کہ اس کو ان حروف کو آگے نقل کرنے کے بارے میں بھی اختیار دیاگیاتھا بلکہ امت پر تو لازم تھاکہ ان جملہ حروف کو آگے روایت کرے اوربعد میں آنے والوں تک بحفاظت پہنچائے، کیونکہ ہر ایک حرف بمنزلہ ایک آیت کے ہے اور حضرت عثمان و دیگر صحابہ قطعاً یہ حق نہیں رکھتے تھے کہ ان میں سے کچھ بھی لغو اور بے فائدہ قرار دے کر حذف کروا دیں ۔ اس نکتے کی وضاحت ایک مثال سے سمجھئے کہ سفر میں مسلمان کو روزہ رکھنے یانہ رکھنے میں اختیار ہے چاہے تو عزیمت پرعمل کرتے ہوئے روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو رخصت پرعمل کرلے۔لیکن اگر وہ چاہے کہ اس رخصت کو ہی باطل قرار دے لے اورنہ صرف اپنے آپ پر بلکہ باقی امت پر بھی سفر میں روزے کو لازم کردے تو کیااس کا یہ طرز ِعمل درست ہوگا۔یقیناً نہیں بلکہ اس کے لیے لازمی ہے کہ اس رخصت کو آگے بھی روایت کرے۔ سو سبعہ حروف میں کسی ایک پر تلاوت کے اختیار میں اور ایک کو باقی رکھ کر باقی چھ حروف کو حذف کردینے میں بھی وہی فرق ہے جو سفر میں رخصت و عزیمت کے اختیار کو نقل کرنے میں یا روزے کی رخصت کو باطل کردینے میں موجود ہے۔ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اس رخصت یعنی حروف سبعہ میں سے کسی پر تلاوت کی رخصت کو باطل اور لغو قرار دے بیٹھیں جبکہ اس کی حکمت آج تک موجود ہے۔بلکہ مختلف زبانوں اور مختلف نسلوں کے لوگوں کے دائرہ اسلام میں آجانے کی بدولت اب اس کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔کیا ایک قریشی پر ہذیل کی زبان کے مطابق تلاوت کرنا بنسبت ایک عجمی کے عربی قرآن کو تلاوت کرنے سے زیادہ مشکل ہے؟یقیناًنہیں ....کیونکہ قریشی اور ہذیل کی لغات باوجود فروعی فرق کے حقیقتاً تو ایک ہی زبان ہے جبکہ عربی اورعجمی کی زبان بالکل مختلف ہے۔ اسی طرح کیا اب امت میں قیامت تک بوڑھے ، بچے،جوان اور قریب المرگ یااَن پڑھ اشخاص کی آمد کاسلسلہ |