Maktaba Wahhabi

225 - 933
ہے۔جس میں اس نے بے شمار مفردات قرآن کو موضوع بناتے ہوئے ان کی نسبت مختلف لغات عرب کی طرف کی ہے، جبکہ وہ لغات صرف وہی نہیں جو اس قول کے قائلین اور خود ابن عبید رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں ۔مزید برآں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول بھی(جو انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا) اس نظریہ کی تردید کرتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ قرآن لغت قریش پرنازل ہوا ہے سو آپ لوگوں کو لغت قریش کے مطابق ہی پڑھائیے اور سکھلائیے نہ کہ ہذیل کی لغت کے مطابق [ایضاح الوقف والابتداء للانباری:۱/۱۳] اسی طرح صحیح بخاری میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قول بھی(جو کہ مصحف کی کتابت کے وقت کہاگیا) صحیح طور پر ثابت ہے کہ:جب تمہارا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قرآن کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اس کو لغت قریش کے مطابق لکھ لیا کرو کیونکہ قرآن ان کی لغت پرنازل ہوا ہے۔ [صحیح البخاري میں کتاب التفسیرباب جمع القرآن ‘ : ۱/۲۲۶] قرآن کریم کے بارے میں ان دو آثارِ صحیحہ سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ قرآن میں صرف ایک ہی لغت اور ایک ہی زبان ہے جوکہ صرف اور صرف قریش کی ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول میں تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس بات سے منع بھی کیا گیا ہے کہ وہ کسی شخص کو لغت ہذیل میں قرآن مت پڑھائیں جبکہ ہذیل عرب کے ان بڑے اور اہم قبائل میں سے ہی ایک ہے جن کے بارے میں ابن عبید رضی اللہ عنہ وغیرہم کایہ کہنا ہے کہ قرآن ان کی لغت پر نازل ہوا۔ ان دونوں صحیح آثار سے ثابت ہونے والی وضاحت کے بعد ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنے ان بھائیوں سے پوچھیں کہ وہ ان آثار کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ اور کون سی ایسی تاویل کرتے ہیں جس کی مدد سے وہ ان آثار سے نکلنے کی راہ پاسکیں ۔ قول خامس : ابن جریر رحمہ اللہ کے اس قول کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ پہلی تو یہ ہے کہ ان حروف سبعہ سے مراد یکساں معانی رکھنے والے مختلف الفاظ کا استعمال ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مثال سے اس پر دلیل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا(یہ احرف سبعہ کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی شخص ھَلُمَّ کی بجائے تعال اور اَقْبِلْ کہہ دے کہ جن سب کامعنی یکساں ہے) سو ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ اس مثال سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد حصر نہیں بلکہ صرف اَحرف سبعہ کی وجہ سے رونما ہونے والے اختلافات میں سے کسی ایک کی طرف ذہن کو متوجہ کرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی ثابت شدہ قراءات کا استقراء اور استعمال ابن جریر رحمہ اللہ کے اس قول کا بخوبی رد کرتاہے، کیونکہ ان میں اختلاف وتغایر کی متعدد صورتیں استعمال ہوئیں ہیں جن میں ایک ’ترادف‘بھی ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی ہے کہ اہل عرب کا باہمی اختلاف دراصل لہجات میں ہے۔ادغام کرنے، نہ کرنے، کسی حرف کو پستی سے یافتح سے پڑھنے، جھٹکا دینے یانہ دینے، لمبا کرنے یانہ کرنے اور اسی طرح کی دیگر صورتوں میں فی الواقع اختلاف ہے اورقراءات کا بڑا مقصد بھی دوسرے طرز اداکی مشقت کو دور کرنا ہے جو ھَلُمَّ کی جگہ، اَقْبِلْ اور تَعَال پڑھنے کی بجائے ان صورتوں میں زیادہ ہے اور ادا سے متعلق ہیں اور اوپر ذکر ہوئی ہیں ۔ چنانچہ احرف کی اس طور تفسیر کرنے کانتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ باقی تمام تغیرات جن میں لہجات کااستعمال بھی ہے
Flag Counter