Maktaba Wahhabi

224 - 933
کی تلاوت فرمارہے تھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں سکھائی تھی۔ سو ان اَحادیث کی موجودگی میں کہ جن میں پڑھنے یا پڑھانے کاتذکرہ صراحت سے موجود ہے، سبعہ احرف سے مزعومہ مفہوم کس طرح اَخذ کیاجاسکتا ہے۔جو اصحاب علم ان کو معانی و اَحکام کی اَصناف قرار دیتے ہیں وہ اس فرمانِ نبوی کاکیامفہوم بیان کریں گے کہ ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک صورت پر پڑھایا پھر دوسری صورت پر....‘‘ کیا فقط ’حلال‘ بتانے والی یا ’حکم‘ثابت کرنے والی،یازجر و توبیخ والی آیات پر جبریل علیہ السلام نے پہلے تلاوت کروائی اورایک صنف کی تلاوت کے وقت دوسری اصناف کونظر انداز اور حذف کردیاپھر دوسری صنف پرتلاوت کروائی پھر تیسری صنف پر؟اس غلط مفہوم کی تردید کے لیے ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث ’احرف سبعہ‘ روایت کرنے والے تابعی ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کاقول بے حد کافی ہے کہ جس کاشمار تابعین میں حفاظ کے امام کی حیثیت سے ہوتا ہے، فرماتے ہیں :مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ سات حروف ایسے معاملے میں ہوتے ہیں جو حرام و حلال میں مختلف نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ ’بلغنی‘سے مراد یہی ہے کہ وہ صحابہ سے یہ بات روایت کررہے ہیں ۔ اسی طرح ابن جریر رحمہ اللہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ سبعہ احرف حلال و حرام اور امر و نہی میں باہم مختلف نہیں ہوتے بلکہ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ’تَعَال‘ کی جگہ ’ھَلُمَّ‘ یا ’أقبل‘ کہہ دیاجائے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ جس طرح ہماری قراءت میں ﴿إنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً﴾ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی قراءت [تفسیر ابن جریر:۱/۵۳] میں ﴿إنْ کَانَتْ اِلَّا زَقْیَۃً وَاحِدَۃً﴾ کے الفاظ ہیں ۔ قول رابع: سبعہ اَحرف کے بارے میں یہ نظریہ کہ قرآن مجید کی سات قراءات سے مراداہل عرب کی سات مشہور اور فصیح لغات ہیں جوکہ قرآن مجید میں زیر استعمال ہیں اور کچھ لغات کااستعمال قرآن میں زیادہ ہے اور کچھ کا قدرے کم.... اگرچہ یہ قول گزشتہ اَقوال کی نسبت قوی معلوم ہوتا ہے مگر چندچیزیں ایسی ہیں جو اس میں ضعف کا باعث ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس قول کے قائلین کا ان لغات فصحٰی کی تعیین میں اور ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ جبکہ احرف سبعہ کے ضمن میں واقعہ یہ ہے کہ حدیث میں ان کے عدد کا تعین نہ صرف موجود ہے بلکہ اکثر احادیث بھی اس تعداد پردلالت کرتی ہیں ۔ لہٰذا اگر ان سے مراد وہ ہے جو یہ کہتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ سے ان کا یہ مفہوم کیوں مخفی رہا حالانکہ انہیں یہ حروف پڑھائے اور سکھائے گئے تھے(جیسا کہ پیچھے گزر چکاہے) انہوں نے حروف پر تلاوت بھی کی اور ہم تک ان حروف کا اکثر حصہ بھی پہنچاہے جو کہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ جہاں تک ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول دو آثار کاتعلق ہے تو ان کی اَسانید میں ضعف کے باعث وہ قابل حجت نہیں ،کیونکہ ان میں سے ایک اثر کو توقتادہ نے ایک غیر معین مجہول راوی سے روایت کیاہے ،لہٰذاوہ روایت’منقطع‘ ہے جبکہ دوسری روایت کلبی سے مروی ہے جو کہ ’کذاب‘ ہے۔ [دیکھئے صفحہ نمبر ۱۵۱] انہی اعتراضات میں سے دوسرا یہ ہے کہ ایساشخص جو ان قراءات کا علم رکھتا ہے اوران کوسمجھتا ہے یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ یہ قراءات فقط ان لغات پر ہی منحصرنہیں جن کا ذکر ہوا ہے بلکہ اسی قول کے اعتقاد رکھنے والے لغت کے ماہرین بھی قرآن مجید میں استعمال ہونے والی لغات کے ضمن میں ان کی ایک طویل فہرست گنواتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کبھی ہمیں بھی ان کی معلومات پرشک کا گمان ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ابن عبید رحمہ اللہ نے ایک کتاب تصنیف کی
Flag Counter