طرف سے کچھ پڑھا ہو بلکہ ہر ایک کا یہ کہنا ہے کہ’’مجھے اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے۔‘‘ ان دلائل سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ سبعہ حروف کے ذریعے کلمات و حروف کو تبدیل کرکے پڑھنے کی رخصت عام نہیں بلکہ اس بات سے مقید ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا اور آپ نے آگے سکھلایا اُس پر ہی تلاوت جائز ہے۔ کسی صحابی کے لیے یا بعدمیں اُمت کے کسی بھی فرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی ایسی قراءت کی تلاوت کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کونہیں سکھائی الغرض قرآن میں کسی بھی لفظ کاہم معنی متبادل لفظ اپنی طرف سے تلاوت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ : ’’سبعہ احرف سے درحقیقت عدد مراد نہیں بلکہ یہ کثرت کے مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے جس طرح کہ اکثر اہل عرب کی عادت ہے۔‘‘ تو اس اشکال کی بھی حقیقت یہ ہے کہ امر واقعہ ایسے نہیں ،کیونکہ واضح نصوص(جن کا ذکر تفصیل سے ہوچکا ہے) عدد کو ثابت کرتے ہیں اور حروف کی حد بندی پردال ہیں اور کسی بھی جگہ پرسبعہ کے علاوہ کوئی اور عدد استعمال نہیں ہوا، اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ سبعہ سے خاص عدد ہی مراد ہے۔(مزید تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں ) قول ثالث: تیسراقول کہ’’احرف سبعہ سے اَحکام ومعانی وغیرہ کی اقسام مراد ہیں ۔‘‘ صاحب ِ قول کے اس شبہ کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ظاہری متن کو(جسے امام حاکم رحمہ اللہ وغیرہ نے روایت کیا ہے) سمجھنے میں غلطی کھائی ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’پہلی کتاب ایک دروازے سے ایک ہی حرف پرنازل ہوئی، جبکہ قرآن کریم سات دروازوں سے سات حروف پرنازل ہوا ہے:ڈرانے والا، حکم دینے والا، حلال کرنے والا، حرام کرنے والا، اپنی مراد میں واضح یعنی محکم، متشابہ، اور گذشتہ قوموں کے حالات بتانے والا۔‘‘[ اَحادیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ ،(رشد، قراءات نمبر، حصہ اول:ص۱۱۲،۱۱۳)] چنانچہ انہیں گمان یہ ہوا کہ یہ مذکورہ انواع ’احرف ‘ کی تفسیر ہیں ،جبکہ فی الحقیقت ایسا نہیں ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل اس حدیث میں دروازوں اور حروف کے بارے میں خبردیتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ ایک تیسری چیز کی بھی خبر دی ہے جس کا پہلی دو سے کوئی تعلق نہیں ، جوقرآن کے معانی ومقاصد کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ساتوں کلمات(جو کہ معانی واَحکام سے متعلق ہیں ) حال ہونے کی بناء پرمنصوب ہیں نہ کہ مجرور ....(یعنی ’’علی سبعۃ أحرف‘‘کابدل بنتے ہوئے مجرور نہیں بلکہ حال بنتے ہوئے منصوب ہیں )لہٰذاعبارت کی تقدیر یوں ہے کہ قرآن نازل کیاگیا اس حال میں کہ ڈانٹنے والا ہے، حکم دینے والاہے....الخ۔ اس کے علاوہ روایات سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ حروف سے مراد پڑھنے کی صورتیں ہی ہیں نہ کہ اَصناف معانی واَحکام!جس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف احادیث میں یہ الفاظ منقول ہیں کہ مجھے جبریل علیہ السلام پڑھایاکرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کوسنا کہ وہ اس صورت میں سورۂ فرقان |