اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبعہ احرف کے فرق کوسمجھاتے ہوئے صحابہ کو مثال دی کہ تم علیماً حکیماً کی جگہ غفوراً رحیماً پڑھ سکتے ہو اور ایک روایت[دیکھئے حضرت ابی، ابوہریرہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہم کی اَحادیث میں :[قراءت نمبرحصہ اول: ص۱۰۶،۱۰۷] میں اس پر ان الفاظ کابھی منقول ہے کہ ’’تم سبعہ احرف پربلا جھجک تلاوت کرو، لیکن خیال رہے کہ عذاب کے ذکر کو رحمت اور رحمت کے ذکر کو عذاب سے مت تبدیل کرو‘‘ اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ میں نے قراءات کوسنا تو باہم متقارب پایا۔ لہٰذا جیسے جیسے تمہیں سکھایاگیا ہے ویسے ہی پڑھو اور اس میں شک سے بچو، کیونکہ قراءات کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال‘ اور ’أقبل‘ کہہ دے۔ [دیکھیے: اَحادیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ ص ۱۱۲] سو انہی مذکورہ بالامرویات سے اس قول کے قائلین کو یہ نظریہ اپنانے میں تقویت ملی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اجازت دی تھی کہ قرآن کے منزل الفاظ کی بجائے کوئی اوربھی تلاوت کئے جاسکتے ہیں جب کہ درحقیقت ایسا نہیں کیونکہ ان مذکورہ نصوص سے زیادہ سے زیادہ یہی بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ حدیث میں آنے والی مثالوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سبعہ اَحرف کے ذریعے وقوع پذیرہونے والے اختلاف اور تبدیلی کی نوعیت بذریعہ مثال واضح فرمانے کاارادہ کیا تھاکہ دیکھو جس طرح فلاں دو الفاظ میں ان کا باہمی تناقض وتضاد نہیں اسی طرح سبعہ احرف میں ہونے والے تغیرات بھی اسی قبیل سے ہیں تاکہ آنے والے لوگوں کو قراءات کے استعمال سے قرآن میں اضطراب کا شائبہ نہ ہو۔ یعنی ان کے ذہن میں یہ خیال نہ آنے پائے کہ قراءات کے استعمال سے قرآن کامفہوم و مدعابھی تبدیل ہوجاتاہے اوران کے سامنے بخوبی واضح ہوجائے کہ سبعہ احرف کے ذریعے ہونے والے اختلافات کی کیا نوعیت ہے۔چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے’ھلم،تعال‘وغیرہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے﴿عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾کی بجائے ﴿غَفُوْرًا رَحِیْمًا﴾ کی سی مثالیں دے کر وضاحت فرما دی کہ یہ سب کی سب صفات الٰہی ہیں ۔ اگر ایک قراءت میں ﴿غَفُوْرًا رَحِیْمًا﴾ کہہ دیا جائے اور دوسری قراءت میں اللہ عزوجل کوعلیم و حکیم سے موصوف کردیا جائے تو اس میں کوئی معنوی تضاد نہیں ۔ دوسرے قول میں بیان ہونے والے نظریہ کی مزید تردید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ ’’ویسے پڑھو جیسے سکھائے گئے ہو۔‘‘[(رشد، قراءات نمبر، حصہ اول:ص۱۰۷)] حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے بالصراحت ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی کوئی بھی قراءت جائز نہیں إلایہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا منقول ہوناثابت ہواور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی گئی ہو۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو بھی اسی تاویل پرمحمول کیاجائے گا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول ’’فَاقْرَئُ وْا کَمَا عُلِّمْتُمْ‘‘ میں ثابت ہونے والی دلیل سے ثابت ہوتاہے۔ مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اَقوال میں فرمایاکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں کہاکہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اُمت کو سات حروف پر قرآن پڑھایئے۔‘‘ یہ دلیل بھی اس بات کوصراحتاً ثابت کرتی ہے کہ جس قراءت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت نہیں کیااور اُمت کونہیں سکھلایا، اس کو احرف سبعہ کے ضمن میں نہیں لایا جاسکتا لہٰذا اصحاب کرام کے جو واقعات اَحادیث میں مذکور ہیں کہ انہوں نے قراءت میں اختلاف کیااور ابتداء امر میں بعض پراس کی قراءت کاانکار کیا تو ان سب واقعات میں کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ کسی صحابی نے اپنی |