Maktaba Wahhabi

221 - 933
پر تلاوت کرتے رہے اور بخوبی ان کاعلم رکھتے تھے یا صحابہ کی اکثریت کے پاس ان حروف کاعلم تھا۔بعد میں صحابہ نے تابعین کو اس کی تعلیم دی اور یہ حروف ہر زمانے میں رائج رہے۔حتیٰ کہ ہم تک متصل اسانید کے ساتھ پہنچ گئے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ کیسے کہاجاتا ہے کہ یہ سبعہ احرف متشابہ المعنی ہیں جن کے معانی و مفاہیم کا اِدراک نہیں کیاجاسکتا....؟ اگر اس قول سے مراد یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے مسلمان اس کا علم رکھتے تھے اور ان کے ساتھ قراءت کرتے تھے، لیکن بعد میں یہ علم ختم ہوگیا اور اس کے اثرات و نشانات معدوم ہوگئے،لہٰذا آج ہم اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے تو اس بات کا بھی عقل و فہم سے کچھ واسطہ نہیں ۔ یہ وہی بات ہے جس کو ابن جریر رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے اور اس پرتفصیلاً بحث آگے پانچویں قول کے ضمن میں آئے گی، لیکن مختصراً یہ سمجھ لینا چاہئے کہ: قرآن کی ایسی ثابت قراءات جو آج ہم میں موجود اور مروّج ہیں اور اپنے دامن میں الأحرف السبعۃ کو سموئے ہوئے ہیں ، کے بارے میں اہل علم و تحقیق کا کبھی یہ اختلاف نہیں رہا کہ ان متواتر عشرہ قراءات کا بڑا حصہ اَحرف سبعہ پر مشتمل ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی متفقہ بات ہے کہ عشرہ قراءات ان تمام حروف پر مشتمل ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرسب سے آخر میں نازل کئے گئے تھے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تاقیامت حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے اور ایسا ممکن نہیں کہ قرآن سے کچھ بھلا دیا گیا ہو، یا معدوم ہوگیا ہو۔ لہٰذا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جملہ حروف جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے آخر میں نازل ہوئے سب کے سب محفوظ و مامون ہیں حتیٰ کہ ہر دور میں اُمت کا ان کو تلقی بالقبول حاصل رہا ہے اور یہ ہمیشہ محفوظ ہی رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قرآن کے اٹھا لیے جانے کاحکم دے دیں ۔ اس قول کی تردید ’حدیث میں وارد شدہ صراحت‘ سے بھی ہوتی ہے کہ ان سبعہ حروف کے نزول کا مقصد اُمت کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ کیا مجہول اورنامعلوم شے سے اُمت کے لیے آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں کس دلیل کی بناء پر اس رخصت اور آسانی کو فقط دورِ اوّل تک محدود کیاجاسکتا ہے؟ جبکہ حدیث میں ’امت‘ کے لفظ عام ہیں اور پوری اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پردال ہیں ۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ حرف کامفہوم قطعی نہیں اور یہ ایسا لفظ ہے جو مشترک اور کثیر معانی پر بولا جاتاہے تو یہ بات تو صحیح ہے کہ حرف کالفظ عام ہے، لیکن باوجود اس کے قرائن و آثار کی رو سے حرف کی تعیین اور مراد واضح اور حتمی ہوچکی ہے(جیسا کہ آگے تفصیل سے بیان ہوگا) چنانچہ اس تفصیل کے بعد حرف کا لفظ مشترک نہیں رہے گابلکہ احادیث سبعہ احرف میں استعمال ہونے والے حرف کا مفہوم متعین ہوجائے گا۔ قول ثانی: یہ قول کہ ’سبعہ احرف‘ کے الفاظ سے حقیقتاً عدد اور گنتی مرادنہیں بلکہ حدیث سبعہ احرف کا مفہوم و منشا یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ نے قراءت بالمعنی کی رخصت دی ہے جس میں وسعت ِ زبان کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی ہم معنی لفظ تلاوت کیا جاسکتا ہے۔ اس قول کے قائلین کو دراصل اس سلسلے میں وارد ہونے والے فرامین سے التباس پیداہوا ہے۔ جس طرح کہ ابی بن کعب، ابوہریرہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث کے ظاہر الفاظ سے یہ اشکال پیداہوتا ہے جو اس طرح ہیں کہ نبی
Flag Counter