Maktaba Wahhabi

242 - 933
وجوہ کی تعداد سات سے ہرگز بڑھ نہیں سکتی بلکہ واقعتا تو چھ سے زیادہ نہیں ہے۔ جیساکہ تفصیل گزر چکی۔ اس کی ایک اور مثال لیں : ﴿وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾اس جملہ میں وَسَارِعُوْا کی واؤ میں دو وجوہ متواترہ ہیں ایک تو واؤ کے ساتھ اور دوسری واؤ کے حذف کی صورت میں نافع، ابن عامر اور ابوجعفر رحمہم اللہ نے بغیر واؤ کے سارعوا پڑھا ہے۔ جبکہ باقی دس قراء نے واؤ کے ساتھ پڑھا ہے۔دوسرے کلمہ یعنی سَارِعُوْا میں بھی دو وجوہ ہیں ایک تو امالہ جو کہ کسائی رحمہ اللہ سے منقول ہے اور دوسرا عدم امالہ کے ساتھ تلاوت کرنا۔مزید برآں سارعوا کو آگے ملانے کی صورت میں بھی مدمنفصل(ایسی مد کو کہتے ہیں جس میں سبب ِ مد اور حرف ِ مد ایک کلمہ میں نہ ہوں ) ہے اور مد منفصل میں بھی دو وجہیں ہیں ایک تو قصر اور دوسری طول۔ قصر کی مقدار ایک الف کے برابر ہے۔ ایک الف کااندازہ کسی انگلی کو دوبارہ کھولنے اور بند کرنے سے لگایا جاتا ہے یعنی گھڑی کے تقریباً دو سکینڈ اس کی مدت ہے۔مد کے مراتب میں بھی قراء میں اختلاف ہے کہ قصر، توسط اور اشباع کی مدت کتنی ہے؟ لیکن بہرحال یہ مراتب وجوہ میں داخل نہیں کیونکہ ہر قاری کی اَدا کے مطابق اس کا اندازہ ہے۔ چنانچہ مد(چاہے کسی مرتبہ سے ہو) کو ایک ہی وجہ شمار کیا جائے گا اور اس کے مقابل قصر ہے۔ الغرض ﴿وَسَارِعُوْا﴾ کے لئے کل چھ وجوہ ہوئیں ،لیکن ہر دو وجوہ دوسری دو وجوہ سے علیحدہ ہیں اور دوسرے کلمہ میں ہیں اور ان کو آپس میں اکٹھا کرکے شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اکیلے کلمہ سارعوامیں صرف دو وجوہ ہیں باقی تو ساتھ ملانے کی صورت میں ہیں ۔ ﴿آلْئٰنَ﴾سورہ یونس میں دو مقام پر آیا ہے اور دوسرے ہمزہ میں تین وجوہ پڑھی گئی ہیں ( تسہیل بین بین اور الف سے بدل کر مد و قصر، دوسری وجہ ہے ہمزہ کی حرکت لازم کو نقل کرنا اور تیسری وجہ سکتہ یا بغیر سکتہ کے پڑھنا) چنانچہ دوسرے ہمزہ میں جو کہ ہمزہ وصل ہے کل تین وجوہ ہوئیں لیکن قراء ہر وجہ میں مد کی وجوہ کا بھی اضافہ کرتے ہیں چاہے وہ مدعارض وقفی ہو جو بحالت وقف ہوتی ہے یا مدبدل۔ نتیجتاًاس کلمہ میں دسیوں مرکب وجوہ بن جاتی ہیں ۔ [قارن بالبدور الزاھرہ، ص۱۴۴] ٭٭٭
Flag Counter