معتدبہ کھیپ تیار ہوگئی۔ پاکستان میں تدریس کے کام کا آغاز پاکستان تشریف لانے کے بعد پہلے آپ راولپنڈی میں حکمت کا کام کرتے رہے مگر استاذ القراء حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ کے ایک خط نے ان کی ذہنی کایا پلٹ دی۔ ایک گفتگو میں حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ استاذ محترم نے مجھے فرمایا :اسماعیل کیا میں نے تجھے اس لیے پڑھایا تھا کہ دوائیں بیچتے پھرو؟ اب کیا تھا حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے راولپنڈی کو خیر باد کہا اور لاہور میں چینیانوالی مسجد کے مدرسہ میں جو حفظ قرآن و تجوید اور قراءت کے صف اوّل کے مدارس میں شمار ہوتا تھا اور جس کی سرپرستی مشہور اہل حدیث عالم مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ فرما رہے تھے بطور مدرس آپ کی تقرری ہوگئی اور آپ نے مدرسہ کو بام عروج تک پہنچایا۔ لاہور میں حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کی تشریف آوری سے پہلے حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ کی برکتوں سے حفظ قرآن مجید کا کام اتنا عروج کو پہنچ چکا تھا کہ لاہور کی گلی گلی کوچہ کوچہ میں مدرسہ تجوید القرآن کے پڑھے ہوئے طلبا اور بچوں کا چرچا تھا۔ادھر مسجد چینیانوالی میں حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ کی انتھک محنتیں رنگ لارہی تھیں ۔ اس زمانے میں یہی تین حضرات بڑے تھے یا پھر ان کے شاگرد تھے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے اگست۱۹۵۷ء میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر مسجد چینیانوالی کے مدرسہ تجوید القرآن کو داغ مفارقت دینے کے بعد جامع مسجد تکیہ سادھواں کے زیر انتظام مدرسہ ترتیل القرآن میں حفظ اور تجوید و قراءت کا کام شروع کیا۔ ایک مختصر مدت گھاس منڈی سرکلر روڈ کے مدرسہ ضیاء القرآن میں شمع تعلیم قرآن کو فروزاں رکھا۔ مدرسہ دار التجوید والقراء ت یہاں تک کہ میوہ منڈی لاہور کے چند معززین نے برلب سرکلر روڈشاہ عالم گیٹ کے جنوب میں اڈہ آزاد پاکستان گڈز کے متصل ایک قطعہ اَراضی محض اِشاعت قرآن حکیم کے لیے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے نام وقف کیا جو صرف ایک ہال پر مشتمل تھا۔یہاں چند مخلص رفقاء کی معیت میں ناظرہ حفظ اور تجوید و قراءات کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔پہلے سال کے اَساتذہ کرام میں قاری محمد تراب،قاری مظفر ، قاری عبد القوی،قاری غازی اللہ،قاری عبد الرحمان، حافظ غلام محمد، سرفہرست ہیں اور شعبہ نظامت میں قاری محمود الحسن اور قاری صاحب الحسن نے ادارہ کو شہرہ آفاق مقام عطا کیا۔ جس کے نتیجے میں اندرون شہر سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے علاوہ مدرسہ کے دار الاقامہ میں باوجود رہائش کی تنگی کے پچاس طالب علم رہائش پذیر تھے۔ جن میں سوڈان کے چار اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے دو طالب علم شامل تھے اور اسی خلوص کا نتیجہ ہے کہ مدرسہ مرکزی دار التجوید و و القراءات کا فیض الحمد للہ تاہنوز جاری ہے حالانکہ کام کو باقی رکھنا اس کے وجود سے بھی زیادہ کٹھن ہوا کرتا ہے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے اَساتذہ کرام ۱۔ قاری کریم بخش امرتسری رحمہ اللہ ۲۔ حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ ۳۔ حافظ قاری محمد نذیر امروہی رحمہ اللہ ۴۔ حضرت مولانا شاہ عبد الغفور العباسی مدنی رحمہ اللہ |