کرے یا اس کی مخالفت کرے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا تختلفوا فان من کان قبلکم اختلفوا فہلکوا‘‘ [صحیح البخاري:۲۴۱۹، مسند أحمد:۱/۴۰۱] ’’اختلاف نہ کرو بیشک تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔‘‘ مصاحف عثمانی کے رسم سے خارج قراءاتِ شاذہ ، جیسے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اورسیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کی قراءت ہے۔[وَاللَّیْلِ إذَا یَغْشَی وَالنَّہَارِ إذَا تَجَلّٰی وَالذَّکَرَ وَالاُنْثٰی ] [صحیح البخاري: ۴۹۴۳، صحیح مسلم:۸۲۴] اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت ہے [فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات ] ، [ان کانت الا زقیۃ واحدۃ] مذکورہ قراءات اگر صحابہ کرام سے ثابت ہوں تو کیا نماز میں ان کی تلاوت کرنا جائز ہے؟ اس سلسلے میں اہل علم کے دو قول ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ سے بھی دو مشہور روایتیں منقول ہیں : ۱۔ جائز ہے: کیونکہ صحابہ کرام او رتابعین عظام ان قراءات شاذہ کے ساتھ نماز میں تلاوت کیا کرتے تھے۔ ۲۔ ناجائز ہے: یہ اکثر اہل علم کا قول ہے، کیونکہ یہ قراءات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہیں او راگر ثابت بھی ہیں تو عرضۂ اخیرہ سے منسوخ ہو چکی ہیں ۔اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اورسیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جبر ئیل علیہ السلام ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے ، لیکن جس سال آپ نے وفات پائی ہے اس سال جبرئیل علیہ السلام نے آپ کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا۔ [صحیح البخاري:۳۶۲۴، صحیح مسلم:۲۴۵۰] عرضۂ اَخیرہ ہی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ کی قراءت ہے،اور اسی پر ہی خلفاء راشدین نے مصاحف کو لکھنے کاحکم دیا تھا۔خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کر دیں ۔پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس کے کئی نسخے تیار کروا کر مختلف شہروں کی طرف روانہ کر دئیے،اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کااس پر اجماع ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس نزاع کو اس اصل پر محمول کیا جائے جس کے بارے میں سائل نے سوال کیا ہے کہ کیا قراءات سبعہ ،حروف سبعہ میں سے ایک حرف ہیں یا کہ نہیں ؟ جمہور اہل علم کے نزدیک قراءات سبعہ ،حروف سبعہ میں سے ایک حرف ہیں ، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مصحف عثمان حروف سبعہ میں سے ایک حرف تھاجو عرضۂ اخیرہ کو متضمن تھا۔ متعدد اَحادیث وآثار اس قول پر دلالت کرتے ہیں ۔ فقہاء ،قراء اور اہل کلام کی ایک جماعت کے نزدیک یہ مصحف( عثمان)ساتوں حروف پر مشتمل تھا،کیونکہ اُمت کے لئے سبعہ احرف میں سے کسی(حرف) کو نقل نہ کرنا جائز نہیں ہے۔اور ان کا مصحف عثمان کونقل کرنے، اور اس کے علاوہ دیگر مصاحف کوچھوڑنے پر اتفاق ہے،کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے لکھوائے ہوئے صحف سے نقل کرنے کا حکم دیا تھا اور صحابہ کرام کے مشورے سے کئی نسخے تیار کروا کر مختلف شہروں کی طرف بھیجے تھے۔ اور ان(سرکاری) مصاحف کے علاوہ باقی مصاحف کو جلادینے کا حکم دیاتھا۔ نیز ان کا کہنا ہے کہ بعض احرف سبعہ کی قراءت سے منع کرنا جائز نہیں ہے۔ امام محمد بن جریر رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے |