آیت کے مرتبے میں ہے۔ ان تمام پر ایمان لانا اور ان کے تقاضوں کی اتباع کرنا واجب ہے۔ اوران دونوں میں سے ایک کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’من کفر بحرف منہ فقد کفر کلہ‘‘ [تفسیر الطبری:۱/۵۴] جس شخص نے قرآن مجید کے ایک حرف کا بھی انکار کر دیا اس نے سارے قرآن کا انکار کر دیا۔ وہ قراءات جولفظاً ومعناًمتحد ہیں فقط ان کی نطقی کیفیات میں تنوع ہے جیسے : ہمزات، مدات، امالات،نقل الحرکات، اظہار ،ادغام ، اختلاس، ترقیق اللامات والراء ات اور ان کی تغلیظ وغیرہ وغیرہ۔یہ زیادہ ظاہر اور بین ہیں اور ان میں ’متنوع اللفظ والمعنی قراء ات‘ کی نسبت بالکل ہی تضاد اور تناقض نہیں ہے، کیونکہ متنوع نطقی کیفیات سے لفظ ایک ہی رہتا ہے۔ اسی لیے علماء اسلام نے تمام مسلم ممالک میں ایک ہی معین قراءت پڑھنے پر زور دیا ہے،بلکہ جس شخص کے نزدیک امام حمزہ رحمہ اللہ کے شیخ الاعمش رحمہ اللہ یا امام یعقوب رحمہ اللہ کی قراءت ثابت ہو اور اس کے نزدیک قراءت حمزہ وکسائی بھی ثابت ہو تو اس کے لئے تمام اہل علم کے نزدیک بلا نزاع اس کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ بلکہ اکثر اَئمہ کرام نے قراءت حمزہ کو لیا ہے جیسے سفیان بن عیینہ، احمد بن حنبل اور بشربن الحارث رحمہم اللہ ، جبکہ دیگر نے امام ابو جعفر بن قعقاع رحمہ اللہ اور شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ مدنیین کی قراءت کو اختیار کیا ہے۔ بعض اہل علم نے بصریوں کی قراءت جیسے یعقوب بن اسحاق رحمہ اللہ کے شیوخ ہیں ، کواختیار کیا ہے ، جبکہ بعض نے حمزہ رحمہ اللہ اورکسائی رحمہ اللہ کی قراءت کو لیا ہے۔ اس مسئلہ میں اہل علم کی معروف کلام موجود ہے۔ اس لیے اہل عراق جن کے نزدیک قراءات سبعہ کی مانند قراءات عشرہ یا قراءات الاحد عشر ثابت ہیں ، وہ ان تمام قراءات کو اپنی کتب میں جمع کرتے ہیں اور نماز و غیر نماز میں ان کی تلاوت کرتے ہیں ۔ اور یہ امر تمام اہل علم کے نزدیک متفق علیہ ہے ، اس پر کسی نے انکار نہیں کیا۔ ابن شنبوذ رحمہ اللہ پر انکار کے حوالے سے قاضی عیاض رحمہ اللہ نے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ چوتھی صدی ہجری میں نمازمیں قراءات شاذہ کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے،ان کا قصہ مشہور ہے ،یہ دراصل مصحف سے خارج قراءاتِ شاذہ کے بارے میں تھا جیسا کہ عنقریب ہم واضح کریں گے۔ اہل علم میں سے کسی نے بھی قراءاتِ عشرہ کا انکار نہیں کیا ، لیکن جو شخص ان قراءات کا عالم نہ ہو ، یا کوئی قراءت اس کے نزدیک ثابت نہ ہو، جیسے بلادِ مغرب میں رہنے والے کسی شخص تک کوئی قراءت پہنچی نہ ہو تو اس کے لئے ایسی قراءات کی تلاوت کرناجائز نہیں ہے جس کا اسے علم نہیں ۔بیشک قراءت [جیسا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ]سنت ہے جسے بعد والے پہلوں سے اخذ کرتے ہیں ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز شروع کرتے وقت استفتاح کی متعدد دعائیں ثابت ہیں ، اذان اور اِقامت کی کئی اَنواع منقول ہیں ، نماز خوف کی کئی صورتیں مروی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ تمام صورتیں حسن او رجائزہیں اور ان کا علم رکھنے والے کے لئے ان پر عمل کرنا مشروع ہے۔ لیکن جو شخص ان تمام صورتوں میں سے کسی ایک کا علم رکھتا ہو ، دیگر کا نہیں ، تو اس کے لئے معلوم صورت کو چھوڑ کر غیر معلوم صورت پر عمل کرنا جائز نہیں ہے ،اور نہ ہی اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی جہالت کی بناء پر عالم پر انکار |