پہلے تیسری صدی ہجری میں امام ابوبکر بن مجاہد رحمہ اللہ نے جمع کیا ، انہوں نے حرمین(مکہ ومدینہ) عراقیین(کوفہ وبصرہ) اور شام کے مشہور سات قراء کرام کو جمع کر دیا، کیونکہ اس زمانے میں یہی پانچوں شہر علوم وفنون کے مرکز تھے، اور فقہ واُصول فقہ، حدیث واُصول حدیث اورعلوم دینیہ کا گہوارہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان پانچ شہروں کے سات مشہور قراء کرام کی قراءات کو جمع کر دیا۔ تاکہ سات کا عدد حدیث مبارکہ میں مذکور ’سبعۃ أحرف ‘ کے موافق ہو جائے ۔ان کا یا ان کے علاوہ کسی بھی اہل علم کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں تھا کہ مذکورہ قراءاتِ سبعہ ہی ’أحرف سبعۃ‘ہیں ، یا ان سات قراءات کے علاوہ کوئی اور قراءت پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اسی لیے بعض اَئمہ قراءت میں سے بعض کہنے والوں نے کہا ہے کہ اگر امام ابن مجاہد رحمہ اللہ ، امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ کوذکر کرنے میں مجھ پر سبقت نہ لے جاتے تو میں امام حمزہ رحمہ اللہ کی جگہ امام یعقوب الحضرم رحمہ اللہ ی کو ذکرکر تا جو دوسری صدی ہجری میں جامع مسجد بصرہ اوراپنے زمانے میں قراء بصرہ کے امام تھے۔ مسلمانوں کا اس امر پر بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سبعہ احرف پر نازل فرمایا ہے اور یہ ساتوں حروف باہم متناقض اور متضاد نہیں ہیں ۔ بلکہ بسا اوقات ان کا معنی متفق ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے تم کسی کو کہو: ہَلُمَّ ،أَقْبِلْ اور تَعَالِ ان سب کا ایک ہی معنی ہے کہ ’’ آؤ‘‘۔ اور بسا اوقات دونوں کا معنی مختلف ہوتا ہے مگر دونوں کے معنی میں تناقض اور تضاد کی بجائے تنوع اور تغایر ہوتا ہے،او ردونوں معنی ہی برحق ہوتے ہیں ۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف،إن قلت : غفورا رحیما ، أو قلت:عزیزا حکیما،فاللّٰہ کذلک ، مالم تختم آیۃ رحمۃ بآیۃ عذاب،أو آیۃ عذاب بآیۃ رحمۃ ‘‘ [ سنن أبوداؤد:۱۴۷۷] ’’قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ۔ اگر آپ ’’غفورا رحیما‘‘ کہیں یا ’’ عزیزا حکیما ‘‘ کہیں تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہے۔ جب تک آپ آیت رحمت کو آیت عذاب کے ساتھ اور آیت عذاب کو آیت رحمت کے ساتھ ملا کر ختم نہ کر یں ‘‘ اور یہی حکم ان قراءات مشہورہ کا بھی ہے: [رَبُّنَا بَاعَدَ] اور [رَبَّنَا بَاعِدْ] [اِلَّا اَنْ یَّخَافَا ألَّا یُقِیْمَا] اور [إِلَّا أنْ یُّخَافَا ألَّا یُقِیْمَا] [وان کان مکرہم لِتَزُوْلَ] اور [ وان کان مکرہم لَتَزُوْلُ] [بل عَجِبْتَ] اور [ بل عَجِبْتُ] وغیرہ وغیرہ۔ اور بعض قراءات ایسی ہیں جن کا معنی من وجہ متفق ہوتا ہے اور من وجہ متباین ہوتا ہے، جیسے: [یَخْدَعُوْنَ] اور [یُخٰدِعُوْنَ] [یَکْذِبُوْنَ] اور [یُکَذِّبُوْنَ] [لَمَسْتُمْ] اور [لٰمَسْتُمْ] [حَتّٰی یَطْہُرْنَ] اور [ حَتّٰی یَطَّہَّرْنَ] وغیرہ وغیرہ وہ قراءات جن میں معنی متغایر ہوتا ہے سب کی سب برحق ہیں ،او رہر قراءۃ دوسری قراءۃ کے ساتھ، ایک ایک |