Maktaba Wahhabi

110 - 933
ہیں کہ احرف سبعہ پر قراءت کرنا اُمت پر واجب نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک رخصت اور اِجازت تھی کہ وہ جس حرف کو آسان سمجھیں اسے اختیار کر لیں ۔بالکل ایسے ہی جیسے سورتوں کی تر تیب وجوبی نہیں ہے بلکہ اجتہادی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف کی ترتیب سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے مصحف سے مختلف تھی،لیکن آیتوں کی ترتیب منزل من اللہ ہے۔ ان کو سورتوں کی مانند آگے پیچھے کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی صورتِ حال سبعہ احرف کی ہے، جب صحابہ کرام نے دیکھا کہ اگر ہم ایک حرف پر جمع نہ ہوئے تو اُمت متفرق ہو جائے گی اورمنتشر ہو جائے گی ،تو انہوں نے ایک حرف پر اجماع کر لیا اوروہ اس امر سے معصوم ہیں کہ گمراہی پر جمع ہو جائیں ، اور اس میں نہ تو ترکِ واجب ہے اور نہ ہی فعلِ مخطور ہے۔ بعض اہل علم کاخیال ہے کہ سبعہ احرف پر پڑھنے کی رخصت شروع اسلام میں تھی،کیونکہ اس وقت ایک حرف پر پڑھنے سے مشقت محسوس ہوتی تھی، جب زبانیں مانوس ہو گئیں اور ایک ہی حرف پر پڑھنا آسان ہو گیا توانہوں نے ایک ہی حرف پر اجماع کر لیا،جو حرف عر ضۂ اخیرہ میں تھا۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ عرضۂ اخیرہ نے دیگر حرو ف کو منسوخ کر دیا ہے۔ ان کے قول کے موافق اس شخص کا بھی قول ہے جو کہتا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہما کے جو حرف رسم عثمانی کے مخالف ہیں وہ منسوخ ہیں ،لیکن جوشخص سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتا ہے کہ وہ قراءت بالمعنی کو جائز کہتے تھے وہ سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر جھوٹ بولتا ہے،کیونکہ انہوں نے کہا: میں نے قراء کی قراءات کو باہم متقارب پایا ہے، جیسے تم میں سے کوئی شخص کہے: أقبل،تعال،ہلم ۔ جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے ویسے ہی پڑھو۔ پھر جو شخص مصحف سے خارج صحابہ کرام سے ثابت قراءات کی تلاوت کو جائز قرار دیتا ہے ، اس کے نزدیک نماز میں تلاوت کرنابھی جائز ہے، کیونکہ وہ احرف سبعہ میں سے ہے جس پر قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ اور جوشخص ناجائز قرار دیتا ہے ۔ اس کے پاس تین دلائل ہیں : ۱۔ وہ اَحرف سبعہ میں سے نہیں ہے۔ ۲۔ وہ حروفِ منسوخہ میں سے ہے۔ ۳۔ اسے چھوڑنے پر صحابہ کا اجما ع ہے۔ ۴۔ جن ذرائع سے قرآن ثابت ہوتا ہے وہ ان ذرائع سے ثابت نہیں ہوا۔ ۵۔ اس مسئلے میں تیسرا قول میرے دادا ابو البرکات رحمہ اللہ کا اختیار ہے کہ ٰاگر کوئی شخص ان قراءات کو قراءت واجبہ [جیسے سورۃ الفاتحہ] میں پڑھتا ہے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی، کیونکہ اسے اپنی قراءت واجبہ کی ادائیگی کا یقین نہیں ہوتا ،کیونکہ اس قراءت کے قرآن ہونے کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اور اگروہ ان قراءات کو قراءت غیر واجبہ[ جیسے سورۃ الفاتحہ کے بعد والی قراء ت] میں پڑھتا ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ٰاس نے نماز کوباطل کرنے والی کوئی شے سرانجام نہیں دی،نیز ممکن ہے کہ وہ قراءت احر ف سبعہ میں سے ہو۔
Flag Counter