لغت موجود ہیں ۔ اسی طرح ہمزۂ ساکنہ کی تحقیق تمیمی لغت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس معلوم ہوا کہ قریش کے علاوہ باقی سب لغت ہی ختم نہیں کردیئے گئے تھے۔بلکہ اُن لغات کو ختم کیا گیا تھا جو غیر فصیح تھے(ان کو عرضہ اخیرہ میں منسوخ کیا گیا تھا) اور قریش کے یہاں معتبر نہیں تھے مثلاً ہذیل کے یہاں حتّٰی کے بجائے عتّٰی اور اسد کے یہاں تَعْلَمُون، أعْھَد وغیرہ میں علامت مضارع کا کسرہ اور بنوتمیم کے یہاں رُدَّتْ،رُدُّوا میں را کاکسرہ اور غیر اسن کے بجائے غیر یاسن پڑھا جاتا تھا۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف میں رسم الخط قریشی ہی رکھا تھا۔ جس کی چند وجوہ ہیں : ۱۔ پہلے زمانہ میں وسعت و رخصت اور سہولت و آسانی کے لیے قرآن کو سات لغات میں پڑھنے کی اِجازت تھی اور ہرقبیلہ اپنے اپنے لغت میں تلاوت کرتا تھا۔ اس لیے مختلف قبائل کے عوام نے کم علمی کی وجہ سے ایک دوسرے کے لغت کی تردید و تنقیص شروع کردی۔ ۲۔ بعض حضرات نے تفسیری جملے و الفاظ اپنی قراءت میں شامل کر لیے تھے۔ ۳۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے ناواقفیت کی بنا پر منسوخ التلاوت آیات بھی اپنی قراءت میں داخل کرلیں ۔ ان حالات کی بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کے کئی نسخے صرف لغت قریش ہی کے موافق اِعراب اور نقطوں کے بغیر لکھوا کر معلمین سمیت مختلف اَطراف و ممالک میں بھیجے جائیں تاکہ سب لوگ انہی کے موافق تلاوت کریں اور نظم و ضبط اور اَمن قائم ہوجائے۔ اور لغت قریش کا رسم الخط اس بنا پر اختیار کیا کہ قرآن کا اکثر و بیشتر حصہ اسی کے موافق اُترا تھا نیز قرآن سب سے پہلے اسی لغت کے موافق نازل ہوا تھا۔پھر آسانی اور رخصت کی غرض سے اورلغات میں پڑھنے کی اِجازت ہوگئی تھی اورمصاحف کو نقطوں اور حرکتوں سے خالی اس لیے رکھا کہ ایک ہی قرآن سے مختلف لغات وحروف سبعہ اور منقول قراءات سب کی سب نکل سکیں ، پس آپ نے آٹھ مصاحف لکھوائے او ران میں بعض اختلافی الفاظ و کلمات کو متفرق طور پر لکھوایا اور یہ مصاحف بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے لکھے گئے۔ پھر آپ نے ایک مصحف کو خاص اپنی تلاوت کے لیے رکھ لیا۔ جسے ’مصحف امام‘ کہا جاتا ہے اور ایک نسخہ اہل مدینہ کو عنایت کیا اور ایک ایک مصحف کوفہ، بصرہ، شام، بحرین، یمن کی طرف معلمین قراءات سمیت روانہ فرمایا۔(مدنی مصحف کے معلّم حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور کوفی کے حضرت ابوعبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ اور بصری کے حضرت عامر بن قیس رضی اللہ عنہ اور شامی کے حضرت مغیرہ بن ابی شہاب رضی اللہ عنہ او رمکی کے حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ تھے) اگر لغات و قراءات اور ’سبع احرف‘ کے نسخ کو تسلیم کرلیں تو لازم آئے گا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین، تبع تابعین،جملہ اَئمہ و مشائخ اور بعد کے سب لوگ آج تک ایک منسوخ چیز کی خدمت و تبلیغ اور تعلیم و اشاعت میں لگے رہے۔ حالانکہ جو چیز قرآن میں نہ ہو۔ اس کے پڑھنے، سننے اور لکھنے پر تو ادنیٰ درجہ کا مومن بھی صبر نہیں کرسکتا۔چہ جائیکہ ذمہ دار اکابر اور خصوصاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تو یہ بات بالکل ناممکن ہے۔ اور اَئمہ کے طبقات وحالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ۷۵ سال سے لے کر ۹۹ سال تک عمر پائی او رہر ایک نے قرآن مجید اور اس کی قراءات کی خدمت میں ۶۰ برس سے زیادہ عرصہ صرف کیا۔ روزانہ بے شمار طلباء ان کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ |