بھی ساتھ لکھ دیتے تھے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وکان لا یعتقد تحریم ذلک وکان یراہ کصحیفۃ یثبت فیھا ما یشاء وکان رأي عثمان والجماعۃ منع ذلک لئلا یتطاول الزمان ویظن ذلک قرآنا‘‘ [شرح النووی:۶/۳۴۹] ’’وہ قرآن کے متن کے ساتھ اس کی تفسیر کو لکھنا حرام نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اسے مصحف کی بجائے ایک صحیفہ سمجھتے تھے اور اس میں جو چاہتے لکھ لیتے، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ اس کو ممنوع سمجھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لوگ اسے بھی قرآن سمجھ لیں ۔‘‘ جمع صدیقی اور جمع عثمانی میں یہ تمام چیزیں نکالی گئی تھیں اور انہوں نے سات حروف میں سے چھ کو قطعاً ختم نہیں کیا تھابلکہ انہوں نے وہی کچھ نکالا تھا جو عرضۂ اَخیرہ کے وقت اللہ کی طرف سے نکال دیا گیاتھا۔ قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الانتصارمیں فرماتے ہیں : ’’ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس کے لکھنے کا حکم فرمایا۔ اس کو منسوخ نہیں کیااور نہ اس کے نزول کے بعد اس کی تلاوت کو منسوخ کیا یہ وہی قرآن ہے جو ’ما بین الدفتین‘ پایا جاتا ہے اور جس کو مصاحف عثمانیہ میں ثبت کردیا گیاہے۔اس قرآن میں نہ کوئی کمی ہے او رنہ ہی کوئی زیادتی۔ اس کی ترتیب اور ضبط ٹھیک اسی انداز پر ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے لوح محفوظ میں ضبط فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سورتوں کی ترتیب(بحکم الٰہی) کی اور اس میں اپنی مرضی سے تغیر و تبدل نہیں کیاپھر اُمت نے اس مصحف کو اسی ترتیب کے مطابق یاد کیا۔‘‘ [الإتقان في علوم القرآن: ۱/۶۵] والد گرامی قدر فضیلۃ الشیخ القاری المقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں : ’’یہ خیال بہت سے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی بڑی مضبوطی سے قائم ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف اپنے دورِ خلافت میں لکھوائے تھے وہ اختلاف قراءت کو ختم کرنے کے لیے تھے۔یہ غلط تخیل بالعموم کالجوں کے پروفیسروں اور بعض غیر محقق علماء میں ، میں نے پایا ہے۔ سوچنا چاہئے کہ جو اختلاف قراءت منزل من السمائ ہے اور جس کے لیے بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں مانگی ہیں ،جیسا کہ اَحادیث میں ہے اور جس کے متعلق مشہور حدیث((أنزل القرآن علیٰ سبعہ أحرف)) شاہد ہے، اس کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کیسے ختم کرسکتے ہیں ۔‘‘(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول حکم الٰہی کا مظہر ہوتا ہے اور شریعت کے اَحکام میں حجت ہوتا ہے اسے کوئی بھی اُمتی اپنی مرضی سے تبدیل یا منسوخ نہیں کرسکتا)‘‘ [تیسیر التجوید کے حواشی مفیدہ، ص۵۹] ایک اِشکال کا ازالہ ََََِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تمام لغات اور حروف کو منسوخ کردیا تھا اور صر ف ایک حرف اور لغت کو باقی رکھا اور وہ لغت قریش تھی اس لیے بس یہی ایک قراءت ہے جو اس وقت پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔ جواب:اوّل تو یہ تسلیم ہی نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لغت قریش کے علاوہ باقی تمام لغات کو ختم کردیا تھا۔ اس لیے کہ روایت حفص رحمہ اللہ ہی کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لغت قریش کے سوا بعض اور لغات بھی موجود ہیں ۔ چنانچہ ان کے لیے مَجْریٰھَا(ہود) میں را اور اس کے بعد والے الف کا اِمالہ ہے۔ حالانکہ امالہ عام اہل نجدکا لغت ہے،اسی طرح فُعلٌ کے وزن میں عین کا ضمہ حجازی اور سکون تمیمی لغت ہے اور روایت حفص رحمہ اللہ میں دونوں ہی |