Maktaba Wahhabi

101 - 933
التابوۃ، فرفع اختلافھم إلی عثمان، فقال: اکتبوہ التابوت، فإنہ بلسان قریش نزل‘‘ [کنز العمّال:۱/۲۸۲، ابن سعد، فتح الباري:۹ /۱۶،سنن الترمذي] ’’چنانچہ اس موقع پر ان کے درمیان ’تابوت‘ اور’ تابوۃ‘ میں اختلاف ہوا، قریشی صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے تھے کہ تابوت(بڑی تاء سے لکھا جائے) اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ تابوۃ(گول تاء سے لکھا جائے) پس اس اختلاف کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا جس پر انہوں نے فرمایا کہ اسے التابوت لکھو، کیونکہ قرآن قریش کی زبان پر نازل ہوا ہے۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ اور قریشی صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان جس اختلاف کاذکر فرمایا اس سے مراد رسم الخط کااختلاف تھا نہ کہ لغات کا۔ [علوم القرآن ازمولانا محمدتقی عثمانی ] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو تلف کیا، وہ کیا تھا؟ اب سوال پیداہوتاہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ختم کیا، وہ کیا تھا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اکٹھے کئے ہوئے صحائف جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، کو لے کر انہیں مصاحف میں نقل کیا، کیونکہ یہ عرضۂ اَخیرہ، یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجو آخری دور ہوا تھا، اس کے مطابق تھے۔ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ کو ہر سال قرآن کا دور کرواتے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’کان یعرض علی النبی! القرآن کل عام مرۃ فعرض علیہ مرتین في العام الذی قبض فیہ‘‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن ہر سال پیش کیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والے سال دو دفعہ آپ پرقرآن پیش کیاگیا۔‘‘ [صحیح البخاري:۸/۴۹۹] ابن سعد رحمہ اللہ نے مشہور تابعی علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کایہ قول نقل کیاہے: ’’فانا أرجو أن تکون قراء تنا العرضۃ الأخیرۃ‘‘ [الطبقات الکبری:۲/۱۹۵] ’’پس مجھے امید ہے کہ ہماری موجودہ قراءات اسی عرضہ اخیرہ کے مطابق ہیں ۔‘‘ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرضۂ اَخیرہ والے قرآن کو ہی نقل کیاتھا جب کہ عرضۂ اَخیرہ والا قرآن وہ قرآن تھاجس میں آخری اَحکام اور جو تبدیلی مقصود تھی، کردی گئی۔ اب یہ قرآن جو تبدیلیوں سے مبرا تھا، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف نقل کئے اور تبدیل شدہ چیزیں جن میں منسوخ آیات، شاذ قراءات اور سبعہ احرف میں سے جزوی چیزیں بدلی جاچکی تھیں اور لوگوں میں شائع ہوچکی تھیں اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع شدہ قرآن کی اطلاع نہ پاسکے، نتیجتاً جس کسی کے پاس جو کچھ تھا وہ تلاوت کرتارہا، جس سے اختلافات کاہونا لازمی امر تھا۔ اب جو مصاحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تلف کئے تھے، ان میں یہ چیزیں شامل تھیں ، مثلاً ایسی منسوخ آیات جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی مگر لوگ پڑھ رہے تھے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’فأنزلت ھذہ الآیۃ ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْعَصْرِ﴾ فقرأناھا ما شاء اللّٰہ ثم نزلت ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ﴾ [فتح الباري:۸/۱۹۸] ’’ پہلے یہ آیت نازل ہوئی ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْعَصْرِ﴾ تو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، ہم اسے پڑھتے رہے پھر یہ آیت نازل ہوئی ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ﴾‘‘ اوریہ منسوخ شدہ آیت عرضۂ اَخیرہ میں موجود نہیں تھی۔اسی طرح کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن لکھتے ہوئے تفسیری کلمات
Flag Counter