کر دیا جائے(اور اس کی نقول کروا کر تمام ممالک میں بھیج دی جائیں ) تاکہ پھر کسی قسم کا افتراق اور اختلاف پیدا نہ ہوسکے تو ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے کہا اے امیرالمؤمنین! آپ کی رائے بہت مناسب ہے۔ ۱۰۔ قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الانتصار میں تحریر فرماتے ہیں : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح صرف قرآن کو ’ما بین اللوحین‘ ہی جمع کردینے کا ارادہ نہیں کیابلکہ انہوں نے تمام مسلمانوں کو ان معروف اور ثابت شدہ قراءات پرجمع کرنے کا ارادہ کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول چلی آرہی تھیں اور اس کے ماسواء شاذ قراءات کو ختم کردینے کاارادہ کیا نیز انہوں نے مسلمانوں کو ایک ایسا مصحف دیاجس میں کوئی تقدیم، تاخیر اور تاویل نہیں ۔وہ تنزیل کے ساتھ ثبت کیا گیا۔ اس میں منسوخ(عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہونے والی آیات اور قراء ات) درج نہیں کی گئیں وہ مصحف رسم کے زبردست اور شاندار اُصولوں پر لکھا گیا اور اس کی قراءات اور حفظ کااہتمام کیا گیا تاکہ بعد میں آنے والی نسلیں کسی فساد اور شبہ میں نہ پڑسکیں اور یہ خدشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ ۱۱۔ ابن ابی داؤد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ کل سات مصاحف لکھے گئے جن میں سے ایک ایک مصحف مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ اور کوفہ روانہ کئے گئے اور ایک مصحف مدینہ میں محفوظ رکھا گیا۔ میرے خیال سے یہ مصحف امام کے علاوہ کاشمار ہے اسے ملاکر کل آٹھ مصاحف بنتے ہیں ۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مصحف قرآنی مرتب کرنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بنائی، تو ان سے فرمایا تھا: ’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم‘‘ [صحیح البخاري مع الفتح: باب جمع القرآن :۹/۱۶] ’’جب تمہارے اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے درمیان قرآن کے کسی حصہ میں اختلاف ہو تو قریش کی زبان پر لکھنا کیونکہ قرآن انہی کی زبان پر نازل ہوا ہے۔‘‘ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ساتوں حروف باقی رکھے تھے تو اس ارشاد کا کیا مطلب ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہی وہ جملہ ہے جس سے حافظ ابن جریر رحمہ اللہ اور بعض دوسرے علماء نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف ختم کرکے صرف ایک حرف قریش کو مصحف میں باقی رکھا تھا، لیکن درحقیقت اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد پر اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ مطلب سمجھنا درست نہیں ہے کہ انہوں نے حرف قریش کے علاوہ باقی چھ حروف کو ختم فرمادیاتھا۔ بلکہ مجموعی روایات دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہ مطلب تھاکہ اگر قرآن کریم کی کتابت کے دوران رسم الخط کے طریقے میں کوئی اختلاف ہو تو قریش کے رسم الخط کو اختیار کیا جائے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس ہدایت کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت نے جب کتابت قرآن کا کام شروع کیا تو پورے قرآن کریم میں ان کے درمیان صرف ایک اختلاف پیش آیا، جس کا ذکر امام زہری نے اس طرح فرمایا ہے۔ ’’فاختلفوا یومئذ في التابوت والتابوۃ، فقال النفر القرشیون: التابوت، وقال زید بن ثابت: |